سوال:
میرے ساتھ یونیورسٹی میں میرا دوست ہے اور میرا بہت قریبی دوست ہے، اس کی یونیورسٹی میں ایک لڑکی کے ساتھ حرام اور ناجائز تعلق اور رابطہ ہے، وہ لڑکا ہمیں اس لڑکی کا ہر میسج ہر چیز دکھاتا تھا اور مجھے یہ بات مناسب نہیں لگ رہی تھی تو میں نے سوچا کہ اس لڑکی کو میں خبردار کر دوں کہ آپ کا ہر میسج ہر بات یہ اپنے آپ کو اونچا دکھانے کے لیے ہمیں پڑھاتا رہتا ہے، لہٰذا آپ یہ کام نہ کریں۔ اس لڑکی نے میرے اس دوست کو شکایت کی کہ اس طرح مجھے آپ کے دوستوں میں سے کسی نے میسج کیا ہے تو میرے اس دوست نے ہم سب کو طلاق دے دی۔ طلاق اس نے کچھ یوں دی کہ "آپ یہ بولے کہ میں نے آپ کے خلاف اگر کوئی سازش کی ہو تو مجھ پر میری بی بی طلاق ہوگی" تو میں نے بیوی کو طلاق ڈال دی، لیکن میں نے اس کے خلاف کوئی سازش تو نہیں کی، کیونکہ وہ میرا قریب دوست ہے اور میرا کلاس فیلو بھی ہے، لیکن وہ جو یہ کام کر رہا تھا، یہ بات کر رہا تھا یہ میں نے غلط سمجھا اور نامناسب سمجھا تو اس چیز کو ختم کرنے کے لئے میں نے اس کی شکایت کی تھی، لہذا اس مسئلہ کے بارے میں آپ کا کیا حل ہے اور کیا یہ طلاق واقع ہوگئی ہے کہ نہیں؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
یہ مسئلہ ہمارے چار دوستوں کے پیش آیا، سب دوستوں نے یہ لفظ بول کر کہ "مجھ پر میری بیوی طلاق ہوگی" کہہ کر تین پتھر پھینک دیئے۔ اسی طرح میں نے اپنی باری پر تین پتھر پھینک کر یہ کہا کہ "مجھ پر میری بیوی طلاق ہوگی اگر میں نے آپ کے خلاف کوئی سازش کی ہو"اور مجھے اس کا طریقہ بھی دوستوں نے بتایا اور مجھے خود اب تک اس بات کا پتہ بھی نہیں تھا کہ پتھر پھینکنے کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ لیکن صرف ان کے کہنے پر ایسا کر دیا تھا اور اس وقت میں نے اپنی بیوی کو ذہن سے بالکل نکالا تھا۔ صرف صفائی دینے کے لیے میں نے یہ الفاظ ادا کیے اور پتھر پھینک دیئے، چونکہ اب مجھے پتہ چلا کہ ایسا کرنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا میں حلفاً یہ بات کہتا ہوں کہ مجھے ایسے طلاق ہونے کا بالکل بھی پتہ نہیں تھا اور نہ مجھے پتھر پھینکنے کے مقصد کا پتہ تھا، صرف ان کے کہنے پر میں نے یہ عمل کیا اور میں نے وہ کام کیا تھا، جس کے لیے وہ یہ عمل کر رہے تھے، میں نے اس کے بارے میں اس کے دوسرے دوست کو ایک میسج بھیجا تھا، بات اتنی سی تھی، باقی کوئی سازش میں نے نہیں کی ہے، لہذا رہنمائی فرمائیں کہ کیا حکم ہے؟ میرے پانچ بچے ہیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتاً آپ نے سازش کی نیت سے یہ الفاظ "مجھ پر میری بیوی طلاق ہو گی اگر میں نے آپ کے خلاف کوئی سازش کی ہو" نہیں کہے، بلکہ اصلاح کی غرض سے یا گناہ کو روکنے یا برائی کو ناپسند کرنے کی نیت سے کہے ہوں تو آپ کی نیت کا اعتبار ہوگا اور آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
اگر آپ کا بیان درست ہے اور واقعتاً آپ کے دوست کے اس اجنبی لڑکی سے تعلقات ہیں تو واضح رہے کہ نکاح شرعی کے بغیر کسی اجنبی اور نامحرم لڑکی سے دوستانہ تعلقات رکھنا ناجائز اور حرام ہے، اس سے بچنا ضروری اور لازم ہے، اس طرح کے ناجائز تعلقات سے معاشرہ میں فساد پھیلتا ہے اور یہ اللہ کے غضب اور عذاب کا ایک بڑا سبب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (784/3، ط: دار الفكر)
(نية تخصيص العام تصح ديانة) إجماعا، فلو قال: كل امرأة أتزوجها فهي طالق ثم قال: نويت من بلد كذا (لا) يصدق (قضاء) وكذا من غصب دراهم إنسان فلما حلفه الخصم عاما نوى خاصا (به يفتى) خلافا للخصاف. وفي الولوالجية: متى حلفه ظالم وأخذ بقول الخصاف، فلا بأس.
وقالوا: النية للحالف لو بطلاق أو عتاق وكذا بالله لو مظلوما وإن ظالما فللمستحلف ولا تعلق للقضاء في اليمين بالله.
رد المحتار: (785/3، ط: دار الفكر)
مطلب: النية للحالف لو بطلاق أو عتاق
(قوله وقالوا النية للحالف إلخ) قال في الخانية: رجل حلف رجلا فحلف ونوى غير ما يريد المستحلف إن بالطلاق والعتاق ونحوه يعتبر نية الحالف إذا لم ينو الحالف خلاف الظاهر ظالما كان الحالف أو مظلوما، وإن كانت اليمين بالله تعالى، فلو الحالف مظلوما فالنية فيه إليه وإن ظالما يريد إبطال حق الغير اعتبر نية المستحلف وهو قول أبي حنيفة ومحمد. اه.
قلت: وتقيده بما إذا لم ينو خلاف الظاهر يدل على أن المراد باعتبار نية الحالف اعتبارها في القضاء، إذ لا خلاف في اعتبار نية ديانة (أي وإن نوي خلاف الظاهر کذا قال "الرافعي"). وبه علم الفرق بينه وبين مذهب الخصاف، فإن عنده تعتبر نية في القضاء أيضا ويفتى بقوله إذا كان الحالف مظلوما كما علمت.
وقوله (أي قول الشيخ الإمام خواهر زاده رحمه الله) بعده فإنه يصدق ديانة يدل على أنه لا يصدق قضاء، وهذا على إطلاقه موافق لظاهر الرواية، أما على مذهب الخصاف فيفرق بين المظلوم فيصدق قضاء أيضا وبين الظالم فلا يصدق.
والحاصل: أن الحلف بطلاق ونحوه تعتبر فيه نية الحالف ظالما أو مظلوما إذا لم ينو خلاف الظاهر كما مر عن الخانية، فلا تطلق زوجته لا قضاء ولا ديانة، بل يأثم لو ظالما إثم الغموس، ولو نوى خلاف الظاهر، فكذلك لكن تعتبر نية ديانة فقط، فلا يصدقه القاضي بل يحكم عليه بوقوع الطلاق إلا إذا كان مظلوما على قول الخصاف ويوافقه ما قدمه الشارح أول الطلاق من أنه لو نوى الطلاق عن وثاق دين إن لم يقرنه بعدد ولو مكرها صدق قضاء أيضا. اه.
رد المحتار: (293/3، ط: دار الفكر)
اختلفوا هل الاعتبار لنية الحالف أو المستحلف؟ والفتوى على نية الحالف إن كان مظلوما لا إن كان ظالما كما في الولوالجية والخلاصة.
وفي حواشيه عن مآل الفتاوى: التحليف بغير الله تعالى ظلم، والنية نية الحالف وإن كان المستحلف محقا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی