سوال:
ایک مسئلہ پوچھنا ہے کہ ہمارے ایک رشتہ دار ہیں، ان کے گھر کا مسئلہ ہے کہ شوہر کی والدہ اپنے بیٹے پر الزام لگا رہی ہیں کہ بیٹے نے اپنی بیوی سے کہا ہے کہ اگر تو نے اپنی بیوی سے بات کی تو تجھے طلاق ہے، لیکن شوہر اس بات کا انکار کر رہا ہے کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے اور بیوی بھی کہہ رہی ہے کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں سنی، اس صورتحال میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر شوہر کی والدہ کے پاس دو گواہ نہ ہوں تو محض ان کے بیان پر تعلیقِ طلاق اور وقوعِ طلاق کا حکم نہیں ہوگا، البتہ اگر واقعی شوہر نے طلاق دے رکھی ہو تو دیانتاً طلاق واقع مانی جائے گی، لیکن قضاءً اور حکم کے اعتبار سے اس وقت تک طلاق کے وقوع کا حکم نہ ہوگا، جب تک کہ شوہر خود اقرار نہ کرے یا اس پر شرعی شہادت قائم ہوجائے، لہذا پوچھی گئی صورت میں ساس کے پاس گواہ نہ ہونے کی صورت میں شوہر کا قول معتبر ہوگا اور طلاق کی تعلیق اور وقوع کا حکم نہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح النووي على صحيح مسلم: (12/3، ط: دار احياء التراث العربي)
لكن البينة على المدعي واليمين على من أنكر وهذا الحديث قاعدة كبيرة من قواعد أحكام الشرع ففيه أنه لا يقبل قول الإنسان فيما يدعيه بمجرد دعواه بل يحتاج إلى بينة أو تصديق المدعى عليه فإن طلب يمين المدعى عليه فله ذلك.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی