سوال:
ہمارے محلے کی دو مساجد میں منبر نہیں بنایا گیا ہے، امام صاحب گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر جمعہ کی تقریر فرماتے ہیں اور جمعہ کا خطبہ مسجد کے فرش پر ہی کھڑے ہو کر دیتے ہیں۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اسلامی میں منبر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز کیا منبر پر کھڑے ہوئے بغیر خطبہ دینے سے ادا ہو جائے گا؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود اپنے لیے منبر بنوایا تھا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عائشہ نامی انصاری عورت نے جناب رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میرا غلام بڑھئی کے پیشے سے وابستہ ہے۔ کیا میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنا لاؤں جس پر آپ بیٹھ جایا کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم چاہو تو بنواسکتی ہو۔‘‘چنانچہ اس عورت کے غلام میمون نے آپ کے لیے مدینہ کے قریب غابہ نامی علاقہ سے جھاؤ کی لکڑی سے منبر تیار کیا، جس میں تین سیڑھیاں تھیں اور جب جمعہ کا دن آیا تو نبی کریم ﷺ اس منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ (صحيح بخاري، حديث نمبر :2095)
بخاری شریف میں ہے: حضرت سالم اپنے والد عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو منبر پرخطبہ دیتے ہوئے سنا، فرما رہے تھے کہ جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو اسے چاہیے کہ غسل کرکے آئے۔ (بخاری، حديث نمبر:919)
علامہ ابن رجب حنبلی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں: اس حدیث میں یہ بتانا مقصود ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوکر لوگوں کو دین سکھایا کرتے تھے۔ اور وہ احادیث جن میں رسول اللہ ﷺ کے منبر پر بیٹھ کر خطبے دینے کا ذکر ہے، ان کو اگر جمع کیا جائے تو بہت زیادہ ہیں، اسی طرح آپ ﷺ کا منبر بنوانے کے بارے میں احادیث بھی بہت زیادہ ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ منبر کا ثبوت خود رسول اللہ ﷺ سے ہے اور مسجد میں منبر کا ہونا اور اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا سنتِ متوارثہ ہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے لے کر موجودہ دور تک یہ سنت مسلسل رائج ہے، لہذا بغیر منبر کے خطبہ دینا خلافِ سنت ہے، اگر مسجد میں باقاعدہ منبر نہ ہو تو کوئی اونچی چیز رکھ کر اس پر کھڑے ہوکر خطبہ دیا جائے۔ نیز واضح رہے کہ منبر کا ہونا جمعے کے خطبے کے لیے شرط نہیں ہے، اس کے بغیر بھی خطبہ ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 2095، 61/3، ط: دار طوق النجاة)
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما: أن امرأة من الأنصار قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله ألا أجعل لك شيئا تقعد عليه، فإن لي غلاما نجارا قال: «إن شئت»، قال: فعملت له المنبر، فلما كان يوم الجمعة قعد النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر الذي صنع، فصاحت النخلة التي كان يخطب عندها، حتى كادت تنشق، فنزل النبي صلى الله عليه وسلم حتى أخذها، فضمها إليه، فجعلت تئن أنين الصبي الذي يسكت، حتى استقرت، قال: «بكت على ما كانت تسمع من الذكر».
و أيضاً: (رقم الحديث: 377، 85/1)
حدثنا علي بن عبد الله قال: حدثنا سفيان قال: حدثنا أبو حازم قال: سألوا سهل بن سعد:من أي شيء المنبر؟ فقال: ما بقي بالناس أعلم مني، هو من أثل الغابة، عمله فلان مولى فلانة، لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وقام عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم حين عمل ووضع، فاستقبل القبلة، كبر وقام الناس خلفه، فقرأ وركع وركع الناس خلفه، ثم رفع رأسه ثم رجع القهقرى، فسجد على الأرض، ثم عاد إلى المنبر، ثم ركع ثم رفع رأسه، ثم رجع القهقرى حتى سجد بالأرض، فهذا شأنه.
و أيضاً: (رقم الحديث: 219، 9/2)
عن سالم، عن أبيه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب على المنبر، فقال: «من جاء إلى الجمعة، فليغتسل».
ارشادالساري للقسطلاني: (رقم الحديث: 377، 403/1، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)
(هو من أثل الغابة) بالغين المعجمة والموحدة موضع قرب المدينة من العوالي، والأثل: بفتح الهمزة وسكون المثلثة شجر كالطرفاء لا شوك له، وخشبه جيد يعمل منه القصاع والأواني، وورقه أشنان يغسل به القصارون (عمله) أي المنبر (فلان) بالتنوين هو ميمون. (مولى فلانة) بعدم الصرف للتأنيث والعلمية أنصارية وهي عائشة فيما قاله البرماوي كالكرماني، ورواه الطبراني بلفظ: وأمرت عائشة فصنعت له منبره، لكن سنده ضعيف.
فتح الباري لابن رجب الحنبلي: (رقم الحديث: 919، 236/8، ط: مكتبة الغرباء الأثرية)
والمقصود من هذا: أن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كان يخطب على المنبر، ويعلم الناس دينهم عليه.ولو جمعت الأحاديث التي فيها ذكر خطب النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - على المنبر وكلامه عليه لكانت كثيرة جدا، وكذلك احاديث اتخاذ المنبر كثيرةٌ -أيضاً.
شرح النووي على صحيح مسلم: (34/5، ط: دار إحياء التراث العربي)
ففيه فوائد منها استحباب اتخاذ المنبر واستحباب كون الخطيب ونحوه على مرتفع كمنبر أوغيره.
رد المحتار: (161/2، ط: دار الفكر)
(قوله المنبر) بكسر الميم من النبر وهو الارتفاع. ومن السنة أن يخطب عليه اقتداء به - صلى الله عليه وسلم - بحر وأن يكون على يسار المحراب قهستاني، ومنبره - صلى الله عليه وسلم - كان ثلاث درج غير المسماة بالمستراح.
الفتاوی الهندية: (147/1، ط: دار الفكر)
ومن السنة أن يكون الخطيب على منبر اقتداء برسول الله - صلى الله عليه وسلم -.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی