سوال:
ہم چہرے اور جلد کے لیے جو کریم وغیرہ استعمال کرتے ہیں تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ اس کے اجزاء حلال ہے یا حرام؟ کچھ کورین اسکن کیئر میں گھونگے کی مصنوعات بھی ہیں تو کیا وہ لگانا ٹھیک ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ جسم کے کسی خارجی حصہ پر استعمال ہونے والی اشیاء (مثلاً: کریم، ویسلین وغیرہ) کی تیاری میں جب تک کسی ناپاک جزء کے شامل ہونے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو تب تک ان کا استعمال کرنا جائز ہے، اس بارے میں بلا وجہ شک و شبہ میں نہیں پڑنا چاہیے، تاہم اگر مستند معلومات کی بنیاد پر کسی حرام جزء ترکیبی (Ingredient) کے شامل ہونے کا قوی شبہ ہو تو چونکہ اس بات کی تحقیق کرنا کہ مصنوع (product) میں شامل اجزائے ترکیبی میں سے کون سا جزء پاک ہے اور کونسا ناپاک ہے؟ دارالافتاء کے دائرہ کار (Domain) میں نہیں آتا، بلکہ اس کے لیے مستقل حلال سرٹیفیکیشن باڈیز (CBs) قائم ہیں جو مفتیان کرام اور فوڈ سائنٹسٹس پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ مختلف مصنوعات (Products) کا آڈٹ کرکے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ اس پراڈکٹ میں موجود اجزائے ترکیبی (Ingredients) حلال و پاک ہیں یا نہیں؟ اور پھر اس کے بعد ان کی طرف سے باقاعدہ اس کا حلال سرٹیفیکیٹ جاری (Issue) کیا جاتا ہے، لہذا اگر مندرجہ بالا اوصاف پر مشتمل کسی معتمد ادارے نے کسی پراڈکٹ کے اجزاء ترکیبی کی پوری تحقیق کرنے کے بعد اس پراڈکٹ کے پاک اور حلال ہونے کی تصدیق کی ہو تو ایسے ادارے پر اعتماد کرکے اس چیز کا استعمال آپ کے لیے جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الأشباه و النظائر: (ص: 49، ط: دار الكتب العلمية)
شك في وجود النجس فالأصل بقاء الطهارة؛ ولذا قال محمد - رحمه الله -: حوض تملأ منه الصغار، والعبيد بالأيدي الدنسة، والجرار الوسخة يجوز الوضوء منه ما لم يعلم به نجاسة؛ ولذا أفتوا بطهارة طين الطرقات.
غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر: (223/1، ط: دار الكتب العلمية)
قوله: الأصل في الأشياء الإباحة إلخ: ذكر العلامة قاسم بن قطلوبغا في بعض تعاليقه أن المختار أن الأصل الإباحة عند جمهور أصحابنا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی