سوال:
السلام علیکم! ہم ریاض شہر میں قیام پذیر ہیں، بعض دفعہ ہم عمرہ کے سفر پر جاتے ہیں تو ہمارے گھر کی مستورات کے ناپاکی کے ایام ہوتے ہیں:
1) کیا مستورات ناپاکی کی حالت میں میقات سے گزرتے ہوئے عمرہ کی نیت کریں گی؟
2) احرام کے بارے میں کیا حکم ہے؟
3) اگر حرم کے قیام کے دوران ناپاکی کے دن مکمل ہو جائیں تو کیا مسجد عائشہ جا کر عمرہ کا احرام باندھیں یا غسل کر کے احرام باندھ لیں؟
4) ہمارا قیام ایک یا دو دنوں کا ہوتا ہے، اگر مستورات کے ایام ختم نہ ہوں تو کیا عمرہ کی قضا واجب ہے؟ ہمارے گھر کی صورتحال ایسی ہے کہ مستورات کو ہم ریاض شہر میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔
جواب: 2،1) آفاقی یعنی میقات کی حدود سے باہر رہنے والے فرد کے لیے بغیر احرام کے میقات سے گزرنا اور حرم مکی میں داخل ہونا جائز نہیں ہے، خواہ اس کی حج یا عمرے کی نیت ہو یا نہ ہو، لہذا پوچھی گئی صورت میں خواتین کو مکہ میں داخل ہونے کے لیے احرام باندھنا لازم ہے ورنہ ان پر دم واجب ہوگا، البتہ عمرے کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے، تاہم وہ بعد میں پاکی حاصل ہوجانے کی امید پر عمرے کی نیت سے احرام باندھ سکتی ہیں، ایسی صورت میں خواتین تلبیہ بھی پڑھ لیں، کیوںکہ ناپاکی کی حالت میں عورت سعی اور طواف کے علاوہ عمرے کے تمام افعال ادا کرسکتی ہے۔
3) اگر عمرے کا احرام پہلے ہی باندھ لیا تھا تو اب پاک ہونے کے بعد صرف غسل کرکے طواف اور سعی کرلیں، دوبارہ مسجد عائشہ جاکر احرام باندھنا ضروری نہیں ہے۔
4) ایسی صورت میں خاتون آخری وقت تک انتظار کرے اور آخری وقت تک خون نہ رکنے کی صورت میں بوجہ مجبوری کے ناپاکی کی حالت میں ہی طواف کرلے، تاکہ وہ احرام کی پابندیوں سے نکل سکے اور اس کے بدلے ایک دم (بکری) حرم میں دے دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية في شرح بداية المبتدي: (134/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
الآفاقي إذا انتهى إليها على قصد دخول مكة، عليه أن يحرم قصد الحج أو العمرة أو لم يقصد عندنا " لقوله عليه الصلاة والسلام: "لا يجاوز أحد الميقات إلا محرما"؛ ولأن وجوب الإحرام لتعظيم هذه البقعة الشريفة فيستوي فيه الحاج والمعتمر وغيرهما ".
رد المحتار: (551/2، ط: دار الفکر)
في اللباب حيث قال: ولو طاف للعمرة كله أو أكثره أو أقله ولو شوطا جنبا أو حائضا أو نفساء أو محدثا فعليه شاة لا فرق فيه بين الكثير والقليل والجنب والمحدث لأنه لا مدخل في طواف العمرة للبدنة ولا للصدقة، بخلاف طواف الزيارة، وكذا لو ترك منه أي من طواف العمرة أقله ولو شوطا فعليه دم وإن أعاده سقط عنه الدم اه لكن في البحر عن الظهيرية: لو طاف أقله محدثا وجب عليه لكل شوط نصف صاع من حنطة إلا إذا بلغت قيمته دما فينقص منه ما شاء اه ومثله في السراج. والظاهر أنه قول آخر فافهم.
معلم الحجاج: (ص: 101، 128، 260، ط: ادارہ اسلامیات)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی