عنوان: اللہ تعالیٰ کاکسی کو گمراہ کرنا(13410-No)

سوال: مفتی صاحب! بے شک ہدایت دینا اور گمراہ کرنا اللہ کا کام ہے، میرا سوال یہ ہے کہ جب یہ اللہ کا کام ہے تو اس میں گمراہ انسان کا کیا قصور ہے؟ نیز اللہ تعالی کس بنیاد پر ہدایت یا گمراہ کرتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں

جواب: جواب سمجھنے سے پہلے چند باتوں کا تمہیداً جاننا ضروری ہے:
۱) جس طرح اللہ تعالیٰ انسانوں کے خالق (پیدا کرنے والے) ہیں، بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ انسانوں کے تمام افعال (کاموں) کے بھی خالق (پیدا کرنے والے) ہیں اور انسان اپنے افعال کا کاسب (عمل کرنے والا) ہے۔
۲) ایک اللہ تعالیٰ کا ارادہ اور مشیت ہے اور ایک اللہ تعالی کی رضا ہے۔ مشیت، ارادہ اور چاہنا اور چیز ہے اور راضی ہونا (پسند کرنا) اور چیز ہے۔ کفر وگمراہی کو پیدا کرنے اور ارادہ کرنے سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اللہ تعالی کو کفر و گمراہی پسند بھی ہے اور وہ اس پر راضی ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:’’وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَۖ‘‘ ’’اور وہ (اللہ) اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا۔‘‘
۳) انسان کو اللہ تعالی نے مجبور محض نہیں بنایا، بلکہ اس کو اختیار دیا گیا ہے، چنانچہ وہ اپنے اختیار سے کھاتا ہے، پیتا ہے، سنتا ہے، چلتا ہے، اسی طرح اپنے اختیار سے ایمان یا کفر قبول کرتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:’’وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّىٰهَا،فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَىٰهَا، قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّىٰهَا، وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّىٰهَا‘‘ (الشمس:۷-۱۰)
ترجمہ:’’ اور(قسم ہے) انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈل دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔‘‘
اسی طرح سورہ الکہف میں ارشاد ہے:
’’وَقُلِ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤًمِنْ وَمَن شَآءَ فَلْيَكْفُرْ‘‘ (الکہف:۲۹)
ترجمہ:’’ اور کہہ دو کہ: حق تو تمہارے رب کی طرف سے آچکا ہے۔ اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔‘‘
لہذا معلوم ہوا کہ انسان کو نیکی اور برائی دونوں کا اختیار دیا گیا ہے اور ساتھ ہی بتا دیا گیا ہے کہ یہ نیکی کا راستہ ہے اور یہ برائی کا، اب انسان جو کچھ بھی کرتا ہے، اپنے ارادے اور خواہش سے کرتا ہے۔
اس تفصیل کے بعد آپ کا سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو مکمل اختیار دیا ہے اور اس کے سامنے حق اور باطل کو بالکل واضح کردیا ہے، اب جو شخص اپنی مرضی سے ہدایت کو قبول کرنا چاہتا ہے، اللہ تعالی اس کے لیے ہدایت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں اور اس کے برخلاف جو شخص اپنی مرضی سے گمراہی کو چاہے اور ظلم اور فسق کا ارتکاب کرنے لگے تو ایسے انسان کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔
قرآن مجید میں ہے: ’’وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا الْفَٰسِقِينَ‘‘ (البقرۃ:۲۶)
ترجمہ:’’(مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں‘‘۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:’’وَاللَّهُ لَا يَھْدِي الْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ‘‘(البقرۃ:۲۵۸)
ترجمہ:’’اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘
لہذا یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ویسے کسی کو گمراہ نہیں کرتا، بلکہ بندے کے برے اعمال کی وجہ سے وہ بندہ خود گمراہ ہوتا ہے اور انسان مکلف ہے، اس لیے وہ جو کچھ کرتا ہے، وہ اس کے اختیار میں ہے، اس لیے کہ اگر وہ برا عمل کرتا ہے تو مجرم اور گنہگار اور اگر اچھا عمل کرتا ہے تو باعثِ ثواب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تفسير الطبري: (276/13، ط: دار التربية و التراث)
الهداية ‌والإضلال ‌بيد ‌الله، و"المهتدي" وهو السالك سبيل الحق، الراكب قصد المحجة= في دينه، من هداه الله لذلك، فوفقه لإصابته. والضال من خذله الله فلم يوفقه لطاعته، ومن فعل الله ذلك به فهو "الخاسر": يعني الهالك.

الفقه الأكبر: (ص: 35، ط: مكتبة الفرقان)
والطاعات كلهَا كَانَت وَاجِبَة بِأَمْر الله تَعَالَى وبمحبته وبرضائه وَعلمه ومشيئته وقضائه وَتَقْدِيره والمعاصي كلهَا بِعِلْمِهِ وقضائه وَتَقْدِيره ومشيئته لَا بمحبته وَلَا برضائه وَلَا بأَمْره.

الإبانة لابن بطة: (197/3، ط: دار الراية)
فخلاصة الكلام في المسألة أن ‌الإضلال والإغواء والختم والصرف عن الهدى والطبع والران والحيلولة بين المرء والإيمان وتقليب الأفئدة كل ذلك لا يأتي من الله ابتداء وإنما يأتي على سبيل العقوبة والجزاء بعد أن صدرت الذنوب من العبد مقدما فلذا لم يكن ذلك ظلما من الله تعالى لعباده بل هو عدل منه تعالى وذلك لأن الظلم عند أهل السنة هو وضع الشيء في غير موضعه أو أن يعاقب الإنسان على عمل غيره وأما عقابه على فعله الاختياري فهو ليس ظلما بل هو عين العدل.

شرح العقائد: (ص: 203-205، ط: مكتبة بشرى)
وهي أي أفعال العبادكلها بإرادته۔۔ ومشيئته۔۔۔۔ فإن قيل: فيكون الكافر مجبورًا في كفره والفاسق في فسقه؛ فلا يصح تكليفهما بالإيمان والطاعة. قلنا: إنه تعالى أراد منهما الكفر والفسق باختيارهما؛ فلا جبر، كما أنه تعالى علم منهما الكفر والفسق بالاختيار، ولم يلزم تكليف المحال.

و أيضا: (ص: 209-211)
وللعباد أفعال اختيارية يثابون عليها ، إن كانت طاعة ويعاقبون عليها، إن كانت معصيةلا كما زعمت الجبرية: أنه لا فعل للعبد أصلا، وأن حركاته بمنزلة حركات الجمادات لا قدرة للعبد عليها، ولا قصد، ولا اختياروهذا باطل؛ لأنا نفرق بالضرورة بين حركة البطش وحركة الارتعاش، ونعلم أن الأول باختیاره دون الثاني؛ ولأنه لو لم يكن للعبد فعل أصلا لما صح تكليفه، ولا ترتب استحقاق الثواب والعقاب على أفعاله ولا إسناد الأفعال التي تقتضي سابقية القصد والاختيار إليه على سبيل الحقيقة، مثل: «صلى» و «صام» و «كتب بخلاف مثل طال الغلام، واسود لونه والنصوص القطعية تنفي ذلك كقوله تعالى : جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ [الأحقاف: ١٤]، وقوله تعالى: فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ﴾ [الكهف: ۲۹] إلى غير ذلك.

منهاج السنة النبوية: (16/3، ط: جامعة امام محمد)
والمحققون من هؤلاء يقولون: الإرادة في كتاب الله تعالى نوعان: ‌إرادة ‌خلقية قدرية ‌كونية، وإرادة دينية [أمرية] شرعية فالإرادة الشرعية الدينية هي المتضمنة للمحبة والرضا والكونية هي [المشيئة] الشاملة لجميع الحوادث، كقول المسلمين: ما شاء الله كان وما لم يشأ لم يكن. وهذا كقوله تعالى {فمن يرد الله أن يهديه يشرح صدره للإسلام ومن يرد أن يضله يجعل صدره ضيقا حرجا كأنما يصعد في السماء} [سورة الأنعام: 125] وقوله عن نوح {ولا ينفعكم نصحي إن أردت أن أنصح لكم إن كان الله يريد أن يغويكم هو ربكم وإليه ترجعون} [سورة هود: 34] .فهذه الإرادة تعلقت بالإضلال والإغواء وهذه هي المشيئة فإن ما شاء الله كان.

رسالة في القضاء و القدر: (ص: 20، ط: دار الوطن)
أن أهل السنة والجماعة قرروا هذا وجعلوا عقيدتهم ومذهبهم أن الإنسان يفعل باختياره وانه يقول كما يريد ولكن أرادته واختياره تابعان لإرادة الله تبارك وتعالى ومشيئته ثم يؤمن أهل السنة والجماعة بان مشيئة الله تعالى تابعة لحكمته وانه سبحانه وتعالى ليس مشيئته مطلقة مجردة ولكنها مشيئة تابعة لحكمته لان من أسماء الله تعالى الحكيم والحكيم هو الحاكم المحكم الذي يحكم الأشياء كوناً وشرعاً ويحكمها عملاً صنعاً والله تعالى بحكمته يقدر الهداية لمن أرادها لمن يعلم سبحانه وتعالى انه يريد الحق وان قلبه على الاستقامة ويقدر الضلالة لمن لم يكن كذلك لمن إذا عرض عليه الإسلام يضيف صدره كأنما يصعد في السماء فان حكمة الله تبارك وتعالى تأبى أن يكون هذا من المهتدين آلا أن يجدد الله له عزماً ويقلب أرادته إلى إرادة أخرى والله تعالى على كل شي قدير ولكن حكمة الله تأبى إلا أن تكون الأسباب مربوطة بها مسبباتها.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 435 Dec 11, 2023
Allah tala ka kisi ko gumrah karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.