سوال:
میں ایک نہایت سنجیدہ مسئلے کے بارے میں آپ سے رہنمائی چاہتی ہوں، جو میری ذاتی زندگی، گناہ، تعلقات اور توبہ سے متعلق ہے۔
شروع سے میری یہ خواہش تھی کہ میرا تعلق حلال طریقے سے ہو، میں ہمیشہ یہ مانتی تھی کہ اگر کوئی لڑکا واقعی مجھ سے محبت کرتا ہے تو وہ میرے گھر والوں کے پاس رشتہ بھیجے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔
ایک لڑکے کو مجھ سے پسندیدگی ہوئی، پہلے میں نے انکار کر دیا، لیکن بعد میں میرے دل میں بھی اس کے لیے جذبات پیدا ہو گئے، اور ہم ایک رشتے میں آ گئے۔ میری ہمیشہ یہ خواہش تھی کہ ہمارا تعلق پاک اور حلال ہو، لیکن چونکہ ہم صرف 20 سال کے تھے، اس لیے گھر والے اس وقت کبھی قبول نہیں کرتے۔
شروع میں ہمارا تعلق صرف بات چیت تک محدود تھا، مگر بعد میں اس نے کہا کہ"میں عام بوائے فرینڈ گرل فرینڈ والا رشتہ نہیں چاہتا۔ آج سے تم میری بیوی ہو اور ہمارا تعلق اسی طرح کا ہوگا۔"
اس کے بعد وہ مجھے اپنی بیوی کہنے لگا، اور میں اسے اپنا شوہر کہنے لگی، پھر اس نے جسمانی قربت کی خواہش ظاہر کی۔ میں گلے لگنے، بوسہ لینے یا اس سے آگے کچھ کرنے کے حق میں نہیں تھی، لیکن وہ بار بار کہتا رہا: "میں تمہارا شوہر ہوں، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم سے ہی شادی کروں گا، تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔" اس نے اللہ کے نام پر کئی قسمیں اور وعدے کیے کہ وہ اپنا وعدہ کبھی نہیں توڑے گا۔
دھیرے دھیرے اس نے حدیں پار کرنی شروع کر دیں، پہلے گلے لگنا، پھر بوسے اور آخرکار ایک بار جنسی تعلق قائم ہوا۔
میں نہیں چاہتی تھی، لیکن محبت اور اس کے جھوٹے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے میں نے ہاں کر دی۔
وہ کہتا تھا کہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہے اور اسے میری ضرورت ہے، اس نے کئی بار میرے شرم گاہ کے حصوں کو بھی چھوا۔
تقریباً چار مہینے بعد اس نے مجھ سے رشتہ توڑ دیا۔میں نے اس سے پوچھا: "اگر تمہیں رشتہ ختم کرنا ہی تھا تو تم نے یہ سب کیوں کیا اور میری زندگی کیوں برباد کی؟"
تو وہ بولا:"کوئی بات نہیں، میں نے حقیقت میں اپنا جسم تمہارے اندر داخل نہیں کیا،اور یہ جنسی عمل نہیں کہلاتا، تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔"
پھر وہ کہنے لگا کہ اب وہ نماز پڑھتا ہے، نیک اعمال کرتا ہے اور اللہ سب کو معاف کر دیتا ہے، اس لیے سب ٹھیک ہے۔
وہ سمجھتا ہے کہ چونکہ اس نے توبہ کر لی ہے، اللہ اسے آسانی سے معاف کر دے گا۔
لیکن میں اسے بڑا ظلم سمجھتی ہوں، اس نے اللہ کے نام پر جھوٹی قسمیں کھائیں، جھوٹے وعدے کیے اور مجھے دھوکہ دے کر گناہ میں مبتلا کیا، وہ گناہ جو میں کبھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اب میں گناہ، شرمندگی اور صدمے میں مبتلا ہوں۔
مجھے محبت، اعتماد اور نکاح پر یقین نہیں رہا۔
اب میں مخلصی سے جاننا چاہتی ہوں:
1) کیا اللہ اسے معاف کر دے گا اگر وہ توبہ کرے، حالانکہ اس نے جان بوجھ کر دھوکہ دیا، اللہ کے نام پر جھوٹی قسمیں کھائیں اور وعدے توڑے؟
2) کیا میں بھی گناہ گار ہوں، حالانکہ میں ایسا نہیں چاہتی تھی اور صرف جذباتی دباؤ اور فریب میں آ کر یہ سب ہوا؟
3) میں سچی توبہ (توبہ نصوح) کیسے کروں؟ کیا اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ اللہ مجھے پورے طور پر معاف کرے اور پاکیزگی عطا فرمائے؟
4)کیا مجھے اس دھوکے، جھوٹ، اور ذہنی اذیت کا کبھی انصاف ملے گا؟
میں واقعی شرمندہ اور نادم ہوں، میں اللہ کی طرف لوٹنا چاہتی ہوں، اس کی رحمت چاہتی ہوں اور دل کا سکون تلاش کرنا چاہتی ہوں۔ براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ میں کس طرح سچی توبہ کروں اور اللہ کا قرب اور سکون دوبارہ حاصل کر سکوں؟
جواب: واضح رہے کہ شریعت نے مرد اور عورت کے اختلاط، بے پردگی اور آپس کی بے تکلفی سے منع کیا ہے، اس لیے کہ یہ گناہ آگے چل کر انسان کو بے راہ روی اور مزید قبیح اعمال کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔
شریعت میں جنسِ مخالف کے ساتھ اختلاط کرنے سے مرد اور عورت دونوں کو یکساں طور پر منع کیا گیا ہے، لہذا مذکورہ معاملہ میں آپ کی غلطی بھی اتنی ہی ہے جتنی اس لڑکے کی تھی، اس کا آپ سے شادی کا وعدہ کرنے اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے سے آپ کے لیے اس کے ساتھ اختلاط اور تعلقات استوار کرنا جائز نہیں ہوا تھا، بلکہ اسی طرح حرام تھا جیسے وعدہ اور قسمیں کھانے سے پہلے حرام تھا، اگر آپ نے شروع سے شریعت کے اصولوں کی پاسداری کی ہوتی تو مذکورہ لڑکے کو آپ کے ساتھ ایسی حرکتیں کرنے کا موقع کبھی نہیں ملتا، بہر حال اب آپ کو اپنے مستقبل اور آخرت کی فکر کرنی چاہیے، سب سے پہلے آپ اپنی غلطی تسلیم کریں اور پھر صدق دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ان گناہوں پر توبہ اور استغفار کریں، سچی توبہ (توبة النصوح) کی یہ نشانی ہے کہ آپ اپنے ان گناہوں پر ندامت محسوس کرتے ہوئے توبہ کریں اور مستقبل میں اس قسم کے تعلقات دوبارہ قائم کرنے سے مکمل اجتناب کریں، اللہ تعالیٰ توبہ کو قبول کرنے والا اور عفور الرحیم ہے، اگر اخلاصِ نیت کے ساتھ سچی توبہ ہوگی تو نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ان جملہ گناہوں سے درگذر فرمائے گا، بلکہ آپ کو دنیا میں بہترین اور حلال نعمُ البدل بھی عطا فرمائے گا۔ یہی حکم اس لڑکے کے لیے بھی ہے، زنا کرنے کے بعد لڑکی سے معافی مانگنا ضروری نہیں ہے، خاص طور پر جبکہ زنا عورت کی رضامندی سے کیا گیا ہو، بلکہ اخلاصِ نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم : (النور، الآیة : 30)
قُل لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيْرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَo
القرآن الکریم: (سورۃالتحریم، رقم الآیۃ: 8)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo
مسند احمد: (333/2، ط:مؤسسه الرسالۃ)
عن علي رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال : لا طاعة لمخلوق في معصية الله عز وجل۔
شرح النووی علی مسلم: (باب التوبۃ، 25/17، ط: دار احیاء التراث العربی)
قال أصحابنا وغيرهم من العلماء للتوبة ثلاثة شروط أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزما جازما أن لايعود إلى مثلها أبدا فإن كانت المعصية تتعلق بآدمي فلها شرط رابع وهو رد الظلامة إلى صاحبها أو تحصيل البراءة منه
در المختار(56/4، ط: دارالفکر)
وَ) حُدَّ (مُسْتَأْمَنٌ قَذَفَ مُسْلِمًا) لِأَنَّهُ الْتَزَمَ إيفَاءَ حُقُوقِ الْعِبَادِ (بِخِلَافِ حَدِّ الزِّنَا وَالسَّرِقَةِ) لِأَنَّهُمَا مِنْ حُقُوقِ اللَّهِ تَعَالَى الْمَحْضَةِ كَحَدِّ الْخَمْرِ۔
رد المحتار: (260/5، ط: دار الفکر)
إلا من أجنبیة فلایحل مس وجهها وکفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ إلی قوله: وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبیة حرام … ثم رأیت في منیة المفتي مانصه: الخلوة بالأجنبیة مکروهة وإن کانت معها أخری کراهة تحریم.
کذا فی امداد الفتاویٰ: (552/4، ط: مکتبہ دارالعلوم)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی