عنوان: نکاح کے وقت لڑکی کی نسبت سوتیلے باپ کی طرف کرنے سے نکاح کا حکم(13418-No)

سوال: میری خالہ کی شادی ہوئی، جس سے ایک لڑکی (شمائلہ) پیدا ہوئی، شمائلہ کے والد کے انتقال کے بعد شمائلہ کی والدہ نے کسی دوسرے مرد سے شادی کی اور شمائلہ کے شناختی کارڈ کے ولدیت کے خانے میں اس کے سوتیلے باپ کا نام لکھ دیا۔ اب شمائلہ کی شادی ہوچکی ہے، انہیں اب پتا چلا ہے کہ سوتیلے باپ کے نام کے ساتھ خود کو منسوب کرنا گناہ ہے، کیا اس کا نکاح صحیح ہوا ہے، کیونکہ نکاح میں اس کے حقیقی والد کے نام کے بجائے اس کے سوتیلے باپ کا نام لیا گیا ہے۔ اسی طرح شناختی کارڈ میں غلط نسبت کا کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب: واضح رہے کہ کسی شخص کی نسبت اس کے حقیقی باپ کے بجائے سوتیلے باپ کی طرف کرنا ناجائز اور سخت گناہ کا کام ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنا لازم ہے، البتہ سوتیلے باپ کا نام بطور سرپرست لکھنے کی گنجائش ہے۔
جہاں تک نکاح کا تعلق ہے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر لڑکی مجلس نکاح میں موجود ہو تو اس کی طرف اشارہ کرکے ایجاب و قبول کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اگرچہ اس کے والد کا نام لینے میں غلطی ہوجائے، لیکن اگر لڑکی مجلس نکاح میں موجود نہ ہو اور اس کے والد کا نام لینے میں غلطی ہوجائے، مثلاً: اس کی نسبت حقیقی والد کے بجائے اس کے سوتیلے والد کی طرف کی جائے (جیسا کہ سوال میں ذکر کردہ صورت میں ہے) تو ایسا نکاح منعقد نہیں ہوتا، اگرچہ گواہ اس لڑکی کو جانتے ہوں۔
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر لڑکی مجلس نکاح میں موجود نہیں تھی یا موجود تو تھی، لیکن اس کی طرف اشارہ نہ کیا گیا ہو تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا ہے، ان دونوں پر لازم ہے کہ فوراً دوبارہ درست طریقے سے نکاح کریں اور جو وقت اب تک ساتھ گزارا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور ندامت کے ساتھ توبہ واستغفار کریں، اور اگر لڑکی مجلسِ نکاح میں موجود تھی اور اس کی طرف اشارہ کرکے نکاح کیا گیا ہو تو یہ نکاح منعقد ہوچکا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

شرح النووی علی مسلم: (144/9، ط: دار احیاء التراث العربی)
قوله صلى الله عليه وسلم (ومن ادعى إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين) هذا صريح في غلظ تحريم انتماء الإنسان إلى غير أبيه أو انتماء العتيق إلى ولاء غير مواليه لما فيه من كفر النعمة وتضييع حقوق الإرث والولاء والعقل وغير ذلك مع ما فيه من قطيعة الرحم والعقوق

الدر المختار مع رد المحتار: (26/3، ط: دار الفكر)
(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح) للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرة وأشار إليها فيصح
(قوله: لم يصح) لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافا لابن الفضل وعند الخصاف يكفي مطلقا والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوبا إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها (قوله: إلا إذا كانت حاضرة إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشارا إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال اقتديت بزيد هذا فإذا هو عمرو فإنه يصح

فتاوی دار العلوم دیوبند (مکمل و مدلّل): (100/7، ط: مکتبه امداد العلوم)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 417 Dec 12, 2023
nikah ke waqt larki ki nisbat baap ki taraf karne se nikah ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.