سوال:
ایک شخص فوت ہوا، اس کے ورثاء میں دو بیویاں، تین بیٹیاں اور چار بہنیں ہیں، شریعت کی روشنی میں مذکورہ ورثاء کے حصے متعین فرمادیں۔
جواب: مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو دو سو اٹھاسی (288) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے دونوں بیویوں میں سے ہر ایک بیوی کو اٹھارہ (18)، تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو چونسٹھ (64) اور چاروں بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو پندرہ (15) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو دونوں بیویوں میں سے ہر ایک بیوی کو %6.25 فیصد حصہ، تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو %22.22 فیصد حصہ اور چاروں بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو %5.20 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن... الخ
الفتاوی الھندیة: (451/6، ط: دار الفكر)
وعصبة مع غيره وهي كل أنثى تصير عصبة مع أنثى أخرى كالأخوات لأب وأم أو لأب يصرن عصبة مع البنات أو بنات الابن، هكذا في محيط السرخسي مثاله بنت وأخت لأبوين وأخ أو إخوة لأب فالنصف للبنت والنصف الثاني للأخت ولا شيء للإخوة؛ لأنها لما صارت عصبة نزلت منزلة الأخ لأبوين.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی