سوال:
ایک بزرگ عورت کا سوال ہے کہ میں نے ساری جوانی حیض کے روزوں کی قضا میں روزے نہیں رکھے، اب میں بوڑھی ہوگئی ہوں، اتنے سارے روزے نہیں رکھ سکتی، میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ حیض کے دنوں کے روزوں کی قضاء کرنا ضروری ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں ان سارے روزوں کا حساب کرکے ان کی قضا کی جائے اور اگر قضا کی طاقت نہیں ہو تو ان کا فدیہ ادا کیا جائے، البتہ یہ یاد رہے کہ فدیہ کے ادا کرنے باوجود اگر کبھی آپ کو روزوں کے قضا کرنے کی طاقت ہوجائے تو ان روزوں کی قضاء کرنا ضروری ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (البقرة، الآية: 184)
أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ •
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 335، ط: دار إحياء التراث العربي)
وحدثنا عبد بن حميد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن عاصم، عن معاذة، قالت: سألت عائشة فقلت: ما بال الحائض تقضي الصوم، ولا تقضي الصلاة. فقالت: أحرورية أنت؟ قلت: لست بحرورية، ولكني أسأل. قالت: كان يصيبنا ذلك، فنؤمر بقضاء الصوم، ولا نؤمر بقضاء الصلاة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی