سوال:
میں نے قسم کھائی تھی کہ آج کے بعد سے غلط لوگوں سے تعلقات نہیں رکھوں گا، اگر میں نے ایسا کیا تو جب میں نکاح کروں تو میری بیوی کو تین طلاق۔ پھر کچھ عرصہ بعد یہ قسم کھائی کہ میں فلاں قسم کی ویڈیوز نہیں دیکھوں گا، اگر میں نے ایک بھی دیکھی تو جب میں نکاح کروں تو میری بیوی کو تین طلاق۔
میں نادانی کے سبب ان دونوں قسموں کو توڑ بیٹھا ہوں، اب سوال یہ ہے کہ جب میں نکاح کروں گا تو میری منکوحہ کو طلاق تین واقع ہوجائیں گی، لیکن میں سوچ رہا ہوں یہ تو چھ بنتی ہیں (دونوں قسموں کو ملا کر) تو کیا دوبارہ کسی سے نکاح پر باقی ماندہ تین طلاقیں ہوجائیں گی یا بس ایک ہی باری واقع ہوں گی اور دوبارہ نکاح صحیح ہو جائے گا؟
جواب: واضح رہے کہ طلاق کو اگر کسی کام کے ساتھ معلق کیا جائے تو وہ کام کرنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، البتہ طلاق کے وقوع کے لیے ضروری ہے کہ جس عورت کو طلاق دی جارہی ہو، وہ عورت نکاح میں موجود ہو یا اگر وہ نکاح میں موجود نہ ہو تو ملک یا سببِ ملک کی طرف نسبت کرکے طلاق دی گئی ہو، لہذا پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شخص نے پہلی مرتبہ قسم کھائی اوریہ الفاظ کہے کہ میں’’آج کے بعد سے غلط لوگوں سے تعلقات نہیں رکھوں گا، اگر میں نے ایسا کیا تو جب میں نکاح کروں تو میری بیوی کو تین طلاق‘‘ تو ان الفاظ کے ساتھ اس نے طلاق کی نسبت نکاح کی طرف کی ہے، اس لیے جب اس نے اس قسم کو توڑ دیا تو اب جب یہ پہلی شادی کرے گا تو بیوی پر تین طلاق واقع ہو جائیں گی۔
اور جب دوسری مرتبہ قسم کھائی اور یہ الفاظ کہے کہ’’میں فلاں قسم کی ویڈیوز نہیں دیکھوں گا، اگر میں نے ایک بھی دیکھی تو جب میں نکاح کروں تو میری بیوی کو تین طلاق‘‘ تو یہاں بھی چونکہ طلاق کی نسبت نکاح کی طرف ہے، لہذا جب اس نے اس قسم کو بھی توڑدیا تو اب جب یہ شخص دوسری مرتبہ شادی کرے گا تو بیوی پر تین طلاق واقع ہو جائیں گی۔
طلاق سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر اس کی غیر موجودگی میں اس کا نکاح کردے، پھر وہ زبانی طور پر اس نکاح کی اجازت نہ دے اور نہ (زبانی طورپر) اس پر رضامندی کا اظہار کرے، بلکہ فعلی طور پر مثلاً مہر وغیرہ دے کر اجازت کا اظہار کرے تو یہ نکاح درست ہوگا اور اس کے بعد طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندية:(420/1،ط:دارالفکر)
إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح نحو أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق وكذا إذا قال: إذا أو متى وسواء خص مصرا أو قبيلة أو وقتا أو لم يخص وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك والإضافة إلى سبب الملك كالتزوج كالإضافة إلى الملك فإن قال لأجنبية: إن دخلت الدار فأنت طالق ثم نكحها فدخلت الدار لم تطلق كذا في الكافي.
أیضاً:(476/1)
رجل قال: إن تزوجت امرأة فهي طالق ثلاثا فالحيلة في ذلك أن يعقد الفضولي عقد النكاح بينهما فيجيز بالفعل ولا يحنث ولو أجاز بالقول يحنث والاعتماد على هذا كذا في الظهيرية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی