سوال:
میں نے اپنی بیوی کو دو مختلف اوقات میں ایک ایک طلاق دی تھی، جو کہ دو طلاق ہو گئی، اس کے بعد میں نے رجوع کر لیا تھا۔ اس صورت حال کا میری ساس کو بھی علم تھا، کچھ دن بعد میری ساس اپنی بیٹی سے ملنے میرے گھر آئی اور میری ساس کے آنے سے پہلے ہی میں نے اپنی بیوی کو اُس کی ماں کے ساتھ میکے جانے سے منع کر دیا تھا۔ میری ساس نے میرے گھر آ کر میری ماں کو سب باتیں بتائیں اور اپنی بیٹی کو زبردستی یا بیٹی کی رضامندی سے اپنے ساتھ میکے لے گئی۔
اس کے بعد میری بیوی نے مجھ سے دو تین دن رابطہ نہیں کیا تو رابطہ نہ کرنے کی وجہ سے مجھے غصہ آیا اور میں نے میسج میں لکھا کہ" میں تجھے طلاق" اور یہ لکھ کر میسج مِٹا دیا اور سینڈ نہیں کیا اور نہ طلاق دینے کی نیت تھی۔
اس بات کو تین چار ماہ ہو گئے ہیں۔ اب مجھے ٹھیک طرح یاد نہیں کہ میں نے اِن دو جملوں میں سے کیا جملہ لکھا تھا “میں تجھے طلاق دیتا ہوں” یا “میں تجھے طلاق” البتہ مجھے یہ یاد ہے کہ لکھتے وقت یہ بات میرے ذہن میں آئی تھی کہ کہیں لکھنے سے بھی طلاق واقع نہ ہو جائے۔
میری بیوی کا کہنا ہے کہ اُس کو بھی ٹھیک طرح یاد نہیں، لیکن گمان ہے کہ میں نے جب اس کو بتایا تھا تو یہ بتایا تھا کہ میں “میں تجھے طلاق” لکھ کر رُک گیا تھا کہ کہیں لکھنے سے بھی طلاق نہ ہو جائے۔ اس بارے میں کیا شرعی حکم ہوگا؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ آپ کا غالب گمان یہی ہے کہ آپ نے صرف یہی الفاظ (میں تجھے طلاق) لکھے تھے، مزید جملہ مکمل نہیں کیا تھا، بلکہ اسے ادھورا چھوڑ دیا تھا تو ایسی صورت میں تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی۔
نیز اگر پورا جملہ لکھنا بھی یاد پڑے تو چونکہ یہ جملہ (میں تجھے طلاق دیتا ہوں) فقہی لحاظ سے کتابت غیر مرسومہ (یعنی طلاق کی ایسی تحریر جس میں شوہر بیوی کے نام کی صراحت کیے بغیر طلاق کے الفاظ لکھے) میں داخل ہے، جس میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے، لہذا اگر واقعتاً آپ کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی اور آپ نے میسیج لکھنے کے بعد بھیجنے سے پہلے ہی مٹادیا تھا تو ایسی صورت میں تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
غمز عيون البصائر في شرح الأشباه و النظائر: (209/1، ط: دار الكتب العلمية)
ومنها ٤٥ - شك هل طلق أم لا لم يقع. شك أنه؛ طلق واحدة، أو أكثر، بنى على الأقل كما ذكره الإسبيجابي إلا أن يستيقن بالأكثر، أو يكون أكبر ظنه على خلافه
قوله: شك هل طلق أم لا، لم يقع. قال المصنف - رحمه الله - في فتاواه: ولا اعتبار بالشك. (٤٦) قوله: وإن قال الزوج: عزمت على أنه ثلاث يتركها ظاهره وجوب الترك، وإن ظن في نفس الأمر أنها واحدة.
الھندیة: (378/1، ط: دار الفکر)
الكتابة على نوعين مرسومة وغير مرسومة ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب وغير موسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا وهو على وجهين مستبينة وغير مستبينة فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكن فهمه وقراءته ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا.
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوي: 41/2220
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی