سوال:
مفتی صاحب! بیس سال پہلے کی بات ہے کہ ایک دفعہ میری تائی نے اپنا دودھ دوائی میں ڈال کر میرے بھائی کو پلایا تھا، جب کہ میرے بھائی کی عمر ڈیڑھ سال تھی، اب میرا بھائی تائی کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہے، کیا تائی کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے؟
جواب: اگر کوئی عورت کسی بچہ کو مدتِ رضاعت میں اپنا دودھ دوائی میں ڈال کر پلادے، تو اس میں تفصیل ہے کہ اگر دودھ دوائی پر غالب ہو، یا دودھ اور دوائی دونوں برابر ہوں، تو اس صورت میں حرمتِ رضاعت ثابت ہوگی، اور اس بچہ کا عورت کی کسی بھی اولاد سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا، اور اگر دوائی غالب ہے، اور دودھ مغلوب ہے، تو اس صورت میں حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوگی، اور اس بچہ کے لئے عورت کی اولاد سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (344/1، ط: دار الفکر)
ولو خلط لبن المرأة بالماء أو بالدواء أو بلبن البهيمة فالعبرة للغالب كذا في الظهيرية. وكذا بكل مائع أو جامد كذا في النهر الفائق. وتفسير الغلبة أن يرى منه طعمه ولونه وريحه أو أحد هذه الأشياء وقيل الغلبة عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - تغير اللون والطعم وعند محمد - رحمه الله تعالى - إخراجه من اللبنية كذا في السراج الوهاج ولو استويا وجب ثبوت الحرمة لأنه غير مغلوب كذا في البحر الرائق۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی