سوال:
ایک آدمی کے چار بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا، اب ہوا یوں کہ بیٹا اپنے ماں باپ کی زندگی سے پہلے فوت ہو گیا اور بیٹے کی شادی ہوئی تھی، بیٹے کا ایک بیٹا موجود ہے، اس کے بعد اس کے والد اور والدہ بھی دنیا سے چلے گئے ہیں، پیچھے چار بہنیں اور ایک فوت شدہ بھائی کا بیٹا اور اس کی بیوہ موجود ہے تو اب میراث ان میں کس طریقے سے تقسیم کی جائے گی؟ آیا اس فوت شدہ بھائی کے بیٹے اور اس کے بیوہ کو کچھ ملے گا یا نہیں؟ اگر ملے گا تو کس حساب سے تقسیم ہوگا؟
جواب: مرحومین کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے چاروں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک (1)، اور پوتے کو دو (2) حصے ملیں گے، جبکہ مرحوم بیٹے کی بیوہ کو اپنے ساس سسر کی میراث میں سے کچھ حصہ نہیں ملے گا۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو چاروں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو %16.66 فیصد حصہ اور پوتے کو %33.33 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ...الخ
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 6732، ط: دار طوق النجاة)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ.
الدر المختار: (774/6، ط: سعید)
ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب.
و فیه ایضاً: (783/6، 784، ط: سعید)
"إن ابن الأخ لایعصب أخته کالعم لایعصب أخته وابن العم لایعصب أخته وابن المعتق لایعصب أخته بل المال للذکر دون الأنثیٰ لأنها من ذوي الأرحام، قال في الرحبیة: ولیس ابن الأخ بالمعصب من مثله أو فوقه في النسب".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی