سوال:
مفتی صاحب! میرا نکاح 2006 میں ہوا تھا اور میرے دو بیٹے بھی ہیں، شروع ہی سے میرا شوہر بری عادتوں میں تھوڑا بہت ملوث تھا اور پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ان برائیوں کا عادی ہوگیا یعنی زنا کاری اور شراب نوشی وغیرہ۔ نیز اس کے علاوہ مجھے خرچہ (نان نفقہ) بھی نہیں دیتا ہے اور میری کوئی ذمہ داری اٹھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے، اسی طرح ان برائیوں سے باز بھی نہیں آتا۔ ان وجوہات کی بنا پر میرے اور میرے شوہر کے درمیان 2016 میں چار ماہ کی اور 2018 میں چھ ماہ کی جدائی ہوچکی ہے، لیکن دوبارہ میلاپ ہونے بعد بھی وہ ان کاموں سے باز نہیں آیا اور نہ میری اور میرے بیٹوں کے نان نفقہ اور ہماری کسی ذمہ داری کو (یعنی بچوں کے اسکول کی فیس وغیرہ) قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔
2020 سے آج تک عرصہ چار سال سے میں اپنے شوہر سے الگ ہوچکی ہوں۔ میں خلع کا مطالبہ کررہی ہوں، جبکہ میرا شوہر اس پر راضی نہیں ہورہا ہے، میں آج بھی مذکورہ وجوہات (میرے شوہر کے شراب و زنا کے عادی ہونے اور میری کسی قسم کی ذمہ داری نہ اٹھانے ) کی بنا پر خلع کے مطالبہ پر قائم ہوں، کیونکہ اس صورت حال میں اس شوہر کے ساتھ میری زندگی تباہ ہورہی ہے۔ براہ مہربانی میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا خلع کے ذریعے میں اپنے اس شوہر سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہوں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ تفصیلات اگر واقعتاً درست ہوں تو بیوی کو چاہیے کہ پوری کوشش کر کے شوہر سے خلع لے کر خلاصی حاصل کرے، اگر شوہر اس کے لیے تیار نہ ہو اور نہ ہی عورت کے پاس نان نفقہ کا کوئی اور انتظام ہو، جس کی وجہ سے اسے سخت "ضرر" لاحق ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں بیوی نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر عدالت سے رجوع کر کے مسلمان جج سے نکاح فسخ کرواسکتی ہے، جس کا طریقہ کار ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:
سب سے پہلے عورت مسلمان جج کی عدالت میں نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر نکاح فسخ کرنے کا مقدمہ دائر کرے اور پھر گواہوں کے ذریعے شوہر سے اپنا نکاح اور باوجود وسعت کے شوہر کا نان نفقہ نہ دینا ثابت کرے، اس کے بعد جج شوہر کو عدالت میں حاضر ہونے کا نوٹس جاری کرے، اگر وہ عدالت میں آجاتا ہے تو جج اس سے کہے کہ یا تو اپنی بیوی کو نان نفقہ دو یا اسے طلاق یا خلع دو، ورنہ ہم تم دونوں کے درمیان تفریق کردیں گے، اب اگر شوہر نہ نان نفقہ دیتا ہے اور نہ ہی طلاق یا خلع دیتا ہے تو مسلمان جج ان کے درمیان تفریق کرادے، لیکن اگر بار بار نوٹس کے باجود شوہر عدالت میں حاضر نہ ہو تو مسلمان جج بیوی کے گواہوں کی بنیاد پر میاں بیوی کے درمیان نکاح فسخ کرکے تفریق کرادے، تفریق کے بعد عورت عدت گزار کر کسی اور جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي: (7045/9، ط: دار الفكر)
ثانيا رأي الجمهور: أجاز الأئمة الثلاثة التفريق لعدم الإنفاق لما يأتي:
١ - قوله تعالى: {ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا} [البقرة:٢٣١/ ٢] وإمساك المرأة بدون إنفاق عليها إضرار بها. وقوله تعالى: {فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة:٢٢٩/ ٢] وليس من الإمساك بالمعروف أن يمتنع عن الإنفاق عليها.
٢ - قال أبو الزناد: سألت سعيد بن المسيب عن الرجل لا يجد ماينفق على امرأته، أيفرق بينهما؟ قال: نعم، قلت له: سنة؟ قال: سنة. وقول سعيد: سنة، يعني سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
٣ - كتب عمر رضي الله عنه إلى أمراء الأجناد، في رجال غابوا عن نسائهم، يأمرهم أن يأخذوهم أن ينفقوا أو يطلقوا، فإن طلقوا بعثوا بنفقة ما مضى.
٤ - إن عدم الإنفاق أشد ضررا على المرأة من سبب العجز عن الاتصال الجنسي، فيكون لها الحق في طلب التفريق بسبب الإعسار أو العجز عن الإنفاق من باب أولى.
والراجح لدي رأي الجمهور لقوة أدلتهم، ودفعا للضرر عن المرأة، ولا ضرر ولا ضرار في الإسلام.
حیلہ ناجزہ: (ص: 72، ط: دار الاشاعت)
احسن الفتاوی: (411/5، ط: سعید)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی