سوال:
مفتی صاحب! والدین کے انتقال کے بعد ان کی تدفین اور جنازے کے اخراجات میں کیا بیٹے حصہ ملا سکتے ہیں، مقصد یہ ہے کہ کیا یہ بچوں کی ذمہ داری ہے یا محض ان کی خوشی پر ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر مرحوم نے ترکہ میں مال چھوڑا ہو تو اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات اس کے ترکہ میں سے لیے جائیں گے، البتہ اس میں اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ اخراجات شرعی طریقے کے مطابق متوسط درجے میں خرچ کیے جائیں، لیکن اگر مرحوم نے ترکہ میں اس قدر مال نہ چھوڑا ہو جس سے یہ اخراجات پورے کیے جاسکیں تو یہ اخراجات اس شخص کے ذمہ ہیں، جس پر مرحوم کا نان و نفقہ واجب تھا۔ اگر ایسے لوگ تعداد میں زیادہ ہوں تو سب پر مشترکہ طور پر ان کے میراث کے حصہ کے بقدر خرچ کرنا لازم ہوگا، یعنی اگر مرحوم ترکہ میں کچھ چھوڑتا تو ہر وارث کو جتنا شرعی حصہ ملتا، اس تناسب سے ہر وارث خرچ کرے گا۔
یہ تفصیل اس صورت میں ہے کہ جب کوئی عاقل بالغ وارث یا کوئی اور شخص مرحوم کی تجہیز و تکفین کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو، لیکن اگر کوئی عاقل بالغ وارث یا کوئی اور شخص مرحوم کی تجہیز و تکفین کے اخراجات اپنی خوشی و رضامندی سے برداشت کر لے تو ترکہ سے یہ اخراجات نہیں نکالے جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (447/6، ط: دار الفكر)
التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط ويستثنى من ذلك حق تعلق بعين كالرهن والعبد الجاني فإن المرتهن وولي الجناية أولى به من تجهيزه، كذا في خزانة المفتين ويكفن في مثل ما كان يلبس من الثياب الحلال حال حياته على قدر التركة من غير تقتير ولا تبذير، كذا في الاختيار شرح المختار
الدر المختار مع رد المحتار: (205/2، ط: دار الفكر)
(وكفن من لا مال له على من تجب نفقته) فإن تعددوا فعلى قدر ميراثهم.
(قوله: فعلى قدر ميراثهم) كما كانت النفقة واجبة عليهم فتح أي فإنها على قدر الميراث، فلو له أخ لأم وأخ شقيق فعلى الأول السدس والباقي على الشقيق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی