سوال:
مفتی صاحب! (1) کیا مالیاتی اداروں یا کسی سے قسطوں کے اوپر جائیداد مکان زمین گاڑی لینا سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ جبکہ ایسا اثاثہ جو کہ زیر بار ہو اور تمام قسطوں کی ادائیگی تک مالیاتی ادارے کے نام پر رہتا ہے۔
2) مزید رہنمائی فرمائیں کہ کیا رہن کے اوپر مکان لے کر اس میں رہائش اختیار کرنا اور مارکیٹ سے کم کرایا مالک کو ادا کرنا جائز ہے؟ تفصیلی طور پر قرآن و حدیث کی روشنی میں تشریح فرمائیں۔ جزاک اللہ
جواب: 1) واضح رہے کہ سود کی بنیاد پر چلنے والے ادارے کسٹمر کی درخواست پر گاڑی یا گھر کیلئے قرض دیتے ہیں، اور اصل رقم سے اضافی رقم (Markup Rate) وصول کرتے ہیں، جو سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، جبکہ اسلامک بینکنگ کیلئے مستند علماء کرام نے شرعی اصولوں کے مطابق ایک نظام تجویز کیا ہے، اور قانونی طور پر بھی اسلامی بینکوں پر اس نظام کی پابندی لازم ہے، لہذا جو غیر سودی بینک مستند علماء کرام کی نگرانی میں شرعی اصولوں کے مطابق معاملات سر انجام دے رہے ہیں، ان سے شرعی اصولوں کے مطابق معاملہ کرنے کی گنجائش ہے، نیز ہماری معلومات کی حد تک کوئی غیر سودی بینک گاڑی/گھر کیلئے کسٹمر کو قرض نہیں دیتا٬ بلکہ وہ کسی اسلامی طریقہ تمویل (Islamic mode of financing) جیسے: اجارہ یا شرکت متناقصہ(Diminishing Musharakah ) وغیرہ کے معاہدہ کے تحت معاملہ کرتے ہیں٬ اس لئے ایسے ادارے کے ساتھ معاملہ کرنے کی گنجائش ہے۔
2) گروی (رہن) کے مکان سے کسی قسم کا فائدہ حاصل کرنا مثلا؛ اس میں رہائش اختیار کرنا یا کسی کو کرایہ پر دینا قرض پر نفع حاصل کرنا ہے، جوکہ سود ہے، لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ اگر گروی پر لئے گئے مکان کو استعمال کرنا ہو تو رہن کا معاملہ ختم کرکے مالک مکان کے ساتھ الگ سے کرایہ داری کا باقاعدہ معاملہ کرنا ہوگا کہ اتنے عرصہ تک مکان میں آپ سے کرایہ پر لیتا ہوں اور اس کا ماہانہ کرایہ اتنا ہوگا، لیکن یہ خیال رہے کہ یہ دونوں معاملات (قرض اور کرایہ داری) الگ الگ کرنے ضروری ہیں، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مشروط نہ ہو، نیز ایسی صورت میں گروی کے مکان کو کرایہ پر لینے کی صورت میں اس جیسے مکان کا مارکیٹ عرف کے مطابق جو کرایہ بنتا ہو، اسی کے آس پاس کرایہ طے کیا جاسکتا ہے، گروی کا مکان ہونے کی وجہ سے مالک مکان سے بہت معمولی کرایہ طے کرنا ایک طرح سے قرض پر نفع حاصل کرنا ہے، جوکہ سود ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السنن الکبری للبیھقي: (باب کل قرض جر منفعة فھو ربا، رقم الحدیث: 11092)
عن فضالة بن عبید صاحب النبي صلی ﷲ علیہ وسلم أنه قال: کل قرض جر منفعة فھو وجه من وجوہ الربا.
اعلاء السنن: (باب الانتفاع بالمرهون، رقم الحدیث: 5818، 64/18، ط: إدارة القرآن و العلوم الاسلامیة)
عن ابن سیرین قلا: جاء رجل إلی ابن مسعود رضي اللّٰه عنه فقال: إن رجلا رهنني فرسًا فرکبتہا، قال: ما أصبت من ظهرها فهو ربا۔
و فیه ایضاً: (باب الانتفاع بالمرھون، رقم الحدیث: 5819، 74/18، ط: إدارة القرآن و العلوم الاسلامیة)
عن طاؤس قال: فی كتاب معاذ بن جبل: من ارتهن أرضًأ فهو بحسب ثمرها لصاحب الرهن من عام حج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
و فیه ایضاً: (باب الانتفاع بالمرھون، 64/18، ط: إدارة القرآن و العلوم الاسلامیة)
قال العلامة العثماني: قلت: هذان الأثران یدلان علی أنه لا یجوز للمرتهن الانتفاع بالمرهون؛ لأنه ربا
فتاوی محمودیه: (126/20، ادارة الفاروق)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی