سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! رہنمائی فرمائی کہ کیا مشارکہ فنانسنگ ( Musharaka Financing) اسلام میں جائز ہے؟
جواب: دو یا زائد افراد کا باہمی رضامندی سے مشترکہ سرمایہ کے ذریعے نفع و نقصان میں شراکت داری کی بنیاد پر کاروبار کرنے کو فقہی اصطلاح میں "شِرکۃ یا مشارکت (Musharaka) کہا جاتا ہے، اور شریعتِ مطھّرہ میں یہ معاملہ اصولی طور پر جائز ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں دو شریکوں کا تیسرا ہوں جب تک کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہ کرے، اور جب کوئی اپنے ساتھی کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں ان کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں“۔ ( ابو داؤد حدیث نمبر: 3383)
مشارکہ اصولی طور پر ایک جائز طریقہ تمویل (Mode of finance ) ہے، لہذا شرعی اصولوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کے ذریعے سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے، البتہ اگر آپ کسی خاص صورت سے متعلق پوچھنا چاہ رہے ہیں تو اس کی تفصیل لکھ کر دوبارہ دریافت کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السنن لأبی داؤد: (رقم الحدیث: 3383)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَفَعَهُ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ، يَقُولُ: أَنَا ثَالِثُ الشَّرِيكَيْنِ مَا لَمْ يَخُنْ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَإِذَا خَانَهُ خَرَجْتُ مِنْ بَيْنِهِمَا".
مصنف عبد الرزاق: (رقم الحديث: 15087)
عبد الرَّزَّاق قال: قال القيس بن الرّبيع، عن أبي الحُصَيْن، عن الشَّعْبِيِّ، عن عليّ في المضاربة: « الْوَضِيعَةُ عَلَى الْمَالِ، وَالرِّبْحُ عَلَى مَا اصْطَلَحُوا عَلَيْهِ» وَأَمَّا الثَّوْرِيُّ فَذَكَرَهُ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ عَلِيٍّ فِي الْمُضَارَبَةِ، أَوِ الشِّرْكَيْنِ
الفتاوی الهندية: (کتاب الشركة، فصل فى بيان شرائط انواع الشركة، 56/6، ط: دار الكتب العلمية)
(ومنها): أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی