سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ مفتی صاحب! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ سونے کی آن لائن تجارت (Digital Gold Trading) کی شرعی حیثیت اور ملکیت کا مسئلہ ہے، میرا سوال سونے کی آن لائن تجارت (Online/Digital Gold Trading) کے شرعی حکم سے متعلق ہے۔
سوال کی بنیادی وضاحت:
1۔ کیا شریعت کی رو سے ڈیجیٹل انداز میں سونا خریدنا جائز ہے؟
2۔ خریداری کے وقت سونے کی قیمت وہی ہوتی ہے جو open market میں چل رہی ہوتی ہے۔
3۔ خریدار کو مکمل اختیار ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے اس سونے کو مارکیٹ کی قیمت پر فوراً فروخت (Sell) کر دے اور اسی وقت اسے پیسے مل جائیں۔
4۔ اس صورت میں خریدار کو (Physical Possession) کے بجائے صرف ڈیجیٹل ملکیت (Digital Ownership) حاصل ہوتی ہے، مگر بقیہ تمام حقوق (Right of Disposal) وہی ہوتے ہیں جو physical ownership طور پر سونا رکھنے والے کے ہوتے ہیں۔
اگر فقہی رائے یہ ہے کہ سونے کی خرید و فروخت کے لیے فوری physical قبضہ شرعاً ضروری ہے تو پھر شیئرز (Shares) کی تجارت میں یہ شرط کیوں لاگو نہیں ہوتی؟ شیئرز کی خرید و فروخت میں بھی عموماً خریدار کو ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں ہی قبضہ ملتا ہے، فزیکل سرٹیفکیٹ لینا ضروری نہیں ہوتا۔
درخواست:
براہ کرم، قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیلی اور مدلل جواب دیں تاکہ سونا اور شیئرز کی ڈیجیٹل ملکیت کے درمیان شرعی فرق واضح ہو کر مکمل طور پر تسلی ہو سکے۔ جزاک اللہ خیراً
جواب: اشیاء کی خرید و فروخت میں جن شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، (مثلاً: فروخت کی جانی والی اشیاء کا موجود ہونا، معلوم و متعین ہونا، فروخت کنندہ کی ملکیت اور قبضہ میں ہونا وغیرہ) سونے کی آن لائن تجارت میں عام طور پر ان امور کا خیال نہیں رکھا جاتا جن کی وجہ سے یہ خرید و فروخت درست نہیں ہوتی، لہٰذا سونے کی آن لائن تجارت سے اجتناب کرنا چاہیے۔
البتہ آن لائن سونے کی تجارت میں اگر کوئی صورت ایسی ہو، جس میں سونا معلوم ومتعین ہو، فروخت کنندہ کی ملکیت میں ہو، نیز فروخت کنندہ کو اس سونے پر قبضہ بھی حاصل ہوجائے تو اس طرح سونا خریدنا یا بیچنا جائز ہے۔
سونے پر قبضہ کرنے کی جو صورت سوال میں ذکر کی گئی ہے، یعنی سونے کے خریدار کو ڈیجیٹل ملکیت (Digital Ownership) دی جاتی ہے، حقیقی قبضہ (Physical Possession) نہیں دیا جاتا تو ڈیجیٹل ملکیت کی کیفیت اور تفصیلات جاننا ضروری ہے، تاہم اصولی بات یہ ہے کہ اگر یہ ڈیجیٹل ملکیت اس طور پر حاصل ہوتی ہے کہ خریدار کو خریدے گئے سونے پر تمام مالکانہ تصرّفات کا اختیار حاصل ہوجاتا ہو، اور اگر وہ چاہے تو اس سونے پر حقیقی قبضہ (Physical Possession) بھی لے سکے، اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، اس ڈیجیٹل ملکیت میں جو سونا خریدا گیا ہے، اس کی تمام تفصیلات بھی درج ہوں جن سے یہ سونا دیگر اشیاء اور سونے سے ممتاز ہوجاتا ہو، نیز خریدے گئے سونے کا ضمان (Risk) بھی خریدار کو منتقل ہوجائے تو ایسے ڈیجیٹل قبضہ کو "تخلیہ" قرار د ے کر قبضہ حکمی (Constructive Possession ) شمار کیا جاسکتا ہے، جبکہ سونے کی مروجہ آن لائن تجارت میں ان تمام باریکیوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، محض عددی اندراج (Reflection) دکھایا جاتا ہے۔
تاہم اگر اوپر ذکر کردہ تمام شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو سونے کی آن لائن تجارت جائز ہوگی، بشرطیکہ کوئی اور شرعی خرابی نہ پائی جائے، نیز سونے یا چاندی کی خرید و فروخت اگر سونے یا چاندی کے بدلہ میں ہو رہی ہو تو اس میں ضروری ہے دونوں طرف فوری (On Spot) قبضہ ہو، نیز ہم جنس (سونے کی سونے کے بدلہ یا چاندی کی چاندی کے بدلہ) خرید و فروخت ہو رہی ہو تو ادھار کے ساتھ کمی زیادتی بھی جائز نہیں ہوگی۔
شیئرز کی خرید وفروخت میں بھی دیگر شرائط کے ساتھ قبضہ حکمی (constructive Possession) ضروری ہے، اس کے بغیر شیئرز کی خرید و فروخت درست نہیں ہے۔
واضح رہے کہ یہ جواب اصولی طور پر دیا گیا ہے، جبکہ آن لائن ٹریڈنگ میں کئی باریک اور پیچیدہ تفصیلات ہوتی ہیں، جن سے کئی دفعہ معاملہ شرعی طور پر فاسد ہوجاتا ہے، لہٰذا اس کی آن لائن تجارت کرنے سے پہلے تمام تفصیلات کسی معتبر دار الافتاء یا مستند مفتی کے سامنے رکھ کر حکم جاننا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (1/ 258، ط: دار الجيل)
تسليم العروض يكون بإعطائها ليد المشتري أو بوضعها عنده أو بإعطاء الإذن له بالقبض بإراءتها له.
الفتاوى الهندية: (3/ 16، كتاب البيوع، ط: دار الفكر بيروت)
والتخلية في بيت البائع صحيحة عند محمد - رحمه الله تعالى - خلافا لأبي يوسف - رحمه الله تعالى - رجل باع خلا في دن في بيته فخلى بينه وبين المشتري فختم المشتري على الدن وتركه في بيت البائع فهلك بعد ذلك فإنه يهلك من مال المشتري في قول محمد وعليه الفتوى هكذا في الصغرى.
حاشية ابن عابدين (4/ 562):
مطلب في شروط التخلية وحاصله: أن التخلية قبض حكما لو مع القدرة عليه بلا كلفة لكن ذلك يختلف بحسب حال المبيع.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 81):
الصرف هو البيع إذا كان كل واحد من عوضيه من جنس الأثمان..... فإن باع فضة بفضة أو ذهبا بذهب لا يجوز إلا مثلا بمثل وإن اختلفا في الجودة والصياغة.... ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق
کذا فی تبویب الفتاویٰ جامعۃ دار العلوم کراچی (رقم الفتوی: 2113/93)
واللہ تعالٰی أعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی