سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! مجھے پوچھنا یہ تھا کہ میں اور میری فیملی 13 دسمبر عمرے کے لیے روانہ ہوئے، نیت کرنے کے بعد جب ہم مکہ پہنچے تو سامان رکھنے کے بعد میری وائف کو حیض آگیا اور ہمیں وہاں مکہ میں چھ دن گزارنے تھے، پھر وہاں سے ہماری مدینے کے لیے روانگی تھی تو میری وائف نے مدینے جا کرغسل کیا اور پھر مدینے سے واپسی پہ جب ہم آرہے تھے تو دوبارہ جب ہم میقات پہنچے، وہاں میری وائف نے دوبارہ عمرے کی نیت کی اور جاتے ہی ہم نے عمرہ ادا کرلیا۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم میری وائف پر دم لازم ہو گیا ہے یا نہیں؟ اس نے مدینے میں جا کے غسل کرنے کے بعد جب مدینے سے واپسی آئے ہیں تو جب عمرہ کیا ہے، اور نیت مدینے سے واپسی کے میقات پر دوبارہ کی تھی، رہنمائی فرمائیے گا کہ اس کے لیے کیا حکم ہے؟
ابھی ہم 27 دسمبر کو پاکستان آچکے ہیں، تھوڑا میں اس کشمکش میں ہوں، میری رہنمائی فرمائیے۔
تنقیح:
1) کیا آپ کی بیوی نے حیض کی حالت میں عمرہ ادا کرلیا تھا یا عمرہ ادا کئے بغیر مدینہ منورہ چلی گئی تھیں اور واپسی پر دوبارہ میقات سے نئے احرام کے ساتھ آئی تھیں؟
2) مدینہ سے واپسی پر نیا احرام باندھا تھا یا پرانے احرام سے ہی عمرہ ادا کیا تھا؟
3) پرانے احرام اور نئے احرام (اگر باندھا تھا تو )کے درمیان کوئی جنایت کی تھی یا نہیں؟
جواب تنقیح:
1) عمرہ ادا نہیں کیا تھا کیونکہ جاتے ہی وہ حالت حیض میں آگئی تھیں، پھر اسی حالت میں مدینہ چلی گئی تھیں، وہاں جا کے انہوں نے غسل کیا اور میقات سے نئے حرم کے ساتھ واپس آئی تھیں۔
2) نیا احرام باندھا تھا کیونکہ پرانا احرام ناپاک ہو چکا تھا۔
3) نہ ہی خوشبو لگائی تھی اور نہ ہی ناخن کاٹے تھے۔
مدینے سے اتے ہی ہوٹل میں سامان رکھ کے فورا عمرہ ادا کرنے گئے اور عمرہ ادا کرلیا تھا۔
جواب: واضح رہے کہ جس عورت کو حالت احرام میں حیض آجائے تو اس کے لیے مسجد حرام جانا، نماز پڑھنا اور طواف کرنا جائز نہیں، البتہ اس دوران وہ اپنے ذکر و اذکار کو جاری رکھ سکتی ہے اور حیض بند ہوجانے کے بعد غسل کرکے عمرہ ادا کرے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں اس عورت نے مدینہ سے واپسی پر جب عمرہ ادا کرلیا اور اس پورے دورانیہ میں اس سے کوئی جنایت بھی نہیں ہوئی ہے تو اس کا عمرہ ادا ہوگیا ہے اور اس پر دم بھی لازم نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (باب بيان وجوه الإحرام الخ، رقم الحدیث: 1213، 881/2، ط: دار إحیاء التراث العربي)
عن جابر رضي الله عنه، أنه قال: أقبلنا مهلين مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بحج مفرد، وأقبلت عائشة رضي الله عنها، بعمرة حتى إذا كنا بسرف عركت، حتى إذا قدمنا طفنا بالكعبة والصفا والمروة، فأمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يحل منا من لم يكن معه هدي، قال فقلنا: حل ماذا؟ قال: «الحل كله» فواقعنا النساء، وتطيبنا بالطيب، ولبسنا ثيابنا، وليس بيننا وبين عرفة إلا أربع ليال، ثم أهللنا يوم التروية، ثم دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على عائشة رضي الله عنها، فوجدها تبكي، فقال: «ما شأنك؟» قالت: شأني أني قد حضت، وقد حل الناس، ولم أحلل، ولم أطف بالبيت والناس يذهبون إلى الحج الآن، فقال: «إن هذا أمر كتبه الله على بنات آدم، فاغتسلي، ثم أهلي بالحج» ففعلت ووقفت المواقف، حتى إذا طهرت طافت بالكعبة والصفا والمروة، ثم قال: «قد حللت من حجك وعمرتك جميعا» فقالت: يا رسول الله، إني أجد في نفسي أني لم أطف بالبيت حتى حججت، قال: «فاذهب بها، يا عبد الرحمن، فأعمرها من التنعيم» وذلك ليلة الحصبة
الهداية: (156/1، ط: دار إحیاء التراث العربي)
وإذا حاضت المرأة عند الإحرام اغتسلت وأحرمت وصنعت كما يصنعه الحاج غير أنها لا تطوف بالبيت حتى تطهر " لحديث عائشة رضي الله عنها حين حاضت بسرف ولأن الطواف في المسجد والوقوف في المفازة وهذا الاغتسال للإحرام لا للصلاة فيكون مفيدا
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی