سوال:
مفتی صاحب! اگر منہ سے پیاز کی بدبو آرہی ہو اور اسی حالت میں نماز پڑھ لی جائے تو کیا نماز ہو جاتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جس کے منہ سے بدبو آرہی ہو، اسے مسجد میں آنے اور نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے "حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز اور گندنا کھانے سے منع فرمایا۔ (ایک مرتبہ) ہم ضرورت سے مجبور ہو گئے اور اس میں سے کچھ سبزی ہم نے کھالی تو آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اس بدبودار سبزی میں سے کچھ کھایا ہو، وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، فرشتے بھی یقیناً اس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں"۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 563)
لہذا منہ سے پیاز کی بدبو آنے کی صورت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، لیکن اگر کسی نے اسی حالت میں نماز پڑھ لی تو نماز کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل
صحیح مسلم: (باب نهي من أكل ثوما أو بصلا أو كراثا أو نحوها، رقم الحدیث: 563، ط: دار إحیاء التراث العربي)
عن جابر، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن أكل البصل والكراث، فغلبتنا الحاجة، فأكلنا منها، فقال: «من أكل من هذه الشجرة المنتنة، فلا يقربن مسجدنا، فإن الملائكة تأذى، مما يتأذى منه الإنس»
الدر المختار مع رد المحتار: (661/1، ط: دار الفکر)
وأكل نحو ثوم، ويمنع منه؛ وكذا كل مؤذ ولو بلسانه.
(قوله وأكل نحو ثوم) أي كبصل ونحوه مما له رائحة كريهة للحديث الصحيح في النهي عن قربان آكل الثوم والبصل المسجد. قال الإمام العيني في شرحه على صحيح البخاري قلت: علة النهي أذى الملائكة وأذى المسلمين ولا يختص بمسجده - عليه الصلاة والسلام -، بل الكل سواء لرواية مساجدنا بالجمع، خلافا لمن شذ ويلحق بما نص عليه في الحديث كل ما له رائحة كريهة مأكولا أو غيره، وإنما خص الثوم هنا بالذكر وفي غيره أيضا بالبصل والكراث لكثرة أكلهم لها
"و قال ط: ويؤخذ منه كراهة التحريم في المسجد للنهي الوارد في الثوم والبصل وهو ملحق بهما، والظاهر كراهة تعاطيه حال القراءة لما فيه من الإخلال بتعظيم كتاب الله تعالى اه."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی