سوال:
مفتی صاحب! میں نے قسم کھائی کہ جب بھی میں شادی کروں تو اس لڑکی کو تین طلاق۔ اس کے بعد میں نے ایک مفتی صاحب سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ کا نکاح کوئی دوسرا شخص فضولی بن کر کرائے تو آپ زبان سے قبول نہ کریں، بلکہ فعلاً اجازت دے دیں، پھر انہوں نے کہا کہ آپ اپنے قریبی دارالافتاء چلے جائیں اور وہاں یہ مسئلہ دریافت کریں۔ میں گھر کے قریب دارالافتاء میں گیا اور وہاں مفتی صاحب سے میں نے پوری صورتحال بیان کی۔ میں نے ان سے کہا میں شادی کرنا چاہتا ہوں، لیکن میرے ساتھ یہ مسئلہ ہے، اب میں خود شادی نہیں کر سکتا، آپ اس مسئلے کو حل کرلیں، بس اس کو میں نے وکیل نہیں بنایا، پھر میری غیر موجودگی میں مفتی صاحب نے اپنی مرضی سے لڑکی کی موجودگی میں میرا نکاح اس لڑکی سے کرا دیا جس سے میں کرنا چاہتا تھا۔ لڑکی بھی وہاں موجود تھی، یہ معاملہ میری غیر موجودگی میں ہوا، پھر مفتی صاحب نے مجھے بلا کر کہا کہ فلاں لڑکی سے آپ کا نکاح کرا دیا ہے اور آپ کی طرف سے میں نے قبول کیا ہے، آپ اپنا مہر ادا کر دیں، پھر میں نے زبان سے کچھ نہیں کہا، بس خاموش سے کچھ مہر کے پیسے نکال کر دے دیے، جس پر انہوں نے کہا کہ یہ کس چیز کے پیسے ہیں؟ میں نے کہا کہ مہر کے، انہوں نے کہا کہ اپنی بیوی کو دے دو، پھر میں نے خاموش سے جا کر بیوی کو دے دیے، اس نے بھی کہا کہ کس چیز کے پیسے ہیں۔ میں نے کہا کہ مہر کے ہیں، میاں بیوی نے ہمبستری بھی کی ہے۔ مفتی صاحب! کیا یہ نکاح صحیح ہوا ہے؟
تنقیح: محترم! آپ سوال میں ذکر کردہ اس جملے "میں خود شادی نہیں کرسکتا، آپ اس مسئلہ کو حل کریں" کی وضاحت فرمادیں کہ اس سے آپ کی کیا مراد تھی؟ آیا آپ کی مراد یہ تھی کہ مفتی صاحب آپ کی شادی کروائے یا مقصد کچھ اور تھا؟ اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
جواب تنقیح: مفتی صاحب! میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ میری شادی کرائے، میرا مقصد یہ تھا کہ میرے بھائی بھی یہاں موجود ہیں میرے لیے اس مسلہ کا حل کرو میرے ذہین میں کوئی خیال نہیں تھا کہ مفتی صاحب وکیل بنے گا یا میرا بھائی، کوئی خیال بھی نہیں تھا۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر واقعتاً آپ نے اس مفتی صاحب کو اپنے نکاح کا وکیل نہیں بنایا تھا اور نہ ہی نکاح کا پیغام ملنے پر آپ نے زبان سے نکاح قبول کیا تھا، بلکہ انہوں نے خود اپنی مرضی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں آپ کا نکاح کرادیا تھا اور آپ نے مہر دے کر صرف اپنے فعل سے نکاح قبول کیا تھا تو ایسی صورت میں آپ کا نکاح صحیح ہوا ہے اور نکاح کے بعد آپ کی بیوی پر کوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیة: (419/1، ط: دار الفکر)
إذا قال: كل امرأة أتزوجها فهي طالق فزوجه فضولي وأجاز بالفعل بأن ساق المهر ونحوه لا تطلق بخلاف ما إذا وكل به لانتقال العبارة إليه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی