سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ اگر تم نے کسی کو بتائی تو تم اپنی بیوی کو طلاق دو گے۔ اس نے کہا نہیں طلاق نہیں دوں گا، ہاں البتہ قسم کھاتا ہوں کہ کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ اس پر پہلے شخص نے کہا نہیں طلاق ضروری ہے، پھر دوسرے نے کہا چلو ٹھیک ہے، اگر میں نے کسی کو یہ بات بتائی تو میری بیوی کو طلاق ہے۔ اس پر پہلے شخص نے کہا: نہیں! بلکہ اس طرح کہو کہ اگر میں نے آپ کی اجازت کے بغیر یہ بات کسی کو بتائی تو میری بیوی کو طلاق ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں پہلا شخص اگر دوسرے کو اجازت دے دے تو کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگی، کیونکہ پہلے اس نے بغیر اجازت کے طلاق کو معلق کیا تھا؟
جواب: واضح رہے کہ قَسَم کا حکم یہ ہے کہ یہ جب ایک بار منعقد ہوجائے تو اس میں نہ تو کوئی قید لگائی جاسکتی ہے اور نہ اس سے رجوع کیا جاسکتا ہے، اسی طرح اگر طلاق کو کسی شرط پر معلق کردیا جائے تو اس کا حکم بھی قسم والا ہی ہوتا ہے، یعنی اس سے رجوع نہیں کیا جاسکتا اور اس میں کوئی قید بھی نہیں لگائی جاسکتی۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شخص نے جب یہ جملہ کہا کہ "قسم کھاتا ہوں کسی کو نہیں بتاؤں گا" اس سے قسم منعقد ہوگئی ہے، اور دوسرا جملہ " چلو ٹھیک ہے اگر میں نے کسی کو یہ بات بتائی تو میری بیوی کو طلاق ہے " اس جملہ سے ایک طلاق کسی کو بتانے کی شرط پر معلق ہوگئی ہے، اور اس کے بعد اجازت سے متعلق جو کلام ہوا وہ لغو ہے، لہٰذا اس شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنی قسم کو پورا کرے اور وہ بات کسی کو نہ بتائے، اور اگر یہ شخص وہ بات کسی کو بتا دیتا ہے، اگرچہ بتانے والے کی اجازت کے ساتھ بتائے تو اس شخص کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی، اور اس کی قسم ٹوٹ جائے گی، جس کا کفارہ ادا کرنا اس پر لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (30/3، ط: دار الكتب العلمية)
وأما حكم هذه اليمين فحكمها واحد وهو وقوع الطلاق أو العتاق المعلق عند وجود الشرط فتبين أن حكم هذه اليمين وقوع الطلاق والعتاق المعلق بالشرط، ثم نبين أعيان الشروط التي تعلق بها الطلاق والعتاق على التفصيل، ومعنى كل واحد منهما حتى إذا وجد ذلك المعنى يوجد الشرط فيقع الطلاق والعتاق وإلا فلا، أما الأول فلأن اليمين بالطلاق والعتاق هو تعليق الطلاق والعتاق بالشرط ومعنى تعليقهما بالشرط - وهو إيقاع الطلاق والعتاق في زمان ما بعد الشرط - لا يعقل له معنى آخر، فإذا وجد ركن الإيقاع مع شرائطه لا بد من الوقوع عند الشرط.
الفتاوی الهندية: (53/2، ط: دار الفكر)
«ولو قال: ... أقسم، أو أقسم بالله، أو أعزم، أو أعزم بالله، أو قال: عليه عهد، أو عليه عهد الله أن لا يفعل كذا، أو قال: عليه ذمة الله أن لا يفعل كذا يكون يمينا»
و فيها أيضا: (415/1)
ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده إلا في كلما..إلخ
البحر الرائق: (551/8، ط: دار الكتاب الإسلامي)
قال (وكلها بطلاقها لا يملك عزلها) لأنه يمين من جهته لما فيه من معنى اليمين وهو تعليق الطلاق بفعلها ولا يصح الرجوع عن اليمين وهو تمليك من جهتها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی