سوال:
میری والدہ محترمہ نومبر میں وفات پاگئی ہیں، ان کو گزشتہ 25 سے 30 سال سے شوگر تھی اور ان کے گردے خراب ہوگئے تھے اور وہ آخری دنوں میں شدید درد اور تکلیف میں مبتلا تھیں۔ ان کو نہ چاہتے ہوئے بھی آخری رات گھر والوں نے ڈائلاسسز کروانے کے لئے راضی کیا اور ڈائلاسسز کے دوران ہی وفات پا گئیں۔ جھے پوچھنا یہ ہے کہ کیا میری پیاری والدہ گردوں اور پھیپھڑوں اور شوگر کی مریض تھیں اور ہر وقت ان کا خون وغیرہ نکالا جاتا تھا اور وہ ڈائلاسسز جو کہ خون کی صفائی ہوتی ہے کہ دوران فوت ہوئیں۔ کیا وہ شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئی ہیں؟
جواب: شوگر ایک موذی ومہلک مرض ہے، ایسا مریض نہایت تکلیف سے گذرتا ہے، چنانچہ اس مرض سے وفات پانے والے کو "شہیدِ اخروى" کہا جا سکتا ہے اور اللہ تعالى کے فضل سے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ اس کی بیماری کی شدید تکلیف کے بدلے میں اللہ تعالى اس کے ساتھ آخرت میں شہید جیسے اعزاز واکرام کا معاملہ فرمائیں گے۔
واضح رہے کہ فقہائے کرام نے دنیوی احکام کے اعتبار سے شہید کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں:
(1) شہید حقیقی (2) شہید حکمی (اخروى)
شہید حقیقی:
وہ ہے جو اللہ کے دین کی سر بلندی اور اس کے تحفظ کے لیے میدانِ جہاد میں کفار سے مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرے، اگر ایسا شہید علاج معالجہ کى نوبت سے پہلے دم توڑ دے تو دنیا میں اس پر شہید کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے، یعنى اس کو غسل وکفن نہیں دیاجاتا ہے، اسے جنازہ کے بعد انہى کپڑوں میں دفن کیا جاتا ہے جن وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا ہے۔
شہید حکمی:
ایسے لوگ جو میدانِ جہاد میں تو شہید نہیں ہوئے، جیسے: طاعون کی وبا میں مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، ایسی عورت جو حالت حمل میں فوت ہوئی ہو، ڈوب کر مرنے والا، کسی موذى مرض میں مرنے والا وغیرہ، احادیث میں متفرق طور پر ان شہداء کو بیان کیا گیا ہے، محدثین نے ایسے افراد کی تعداد چالیس سے زائد بتائی ہے، ایسے افراد کو دنیا میں غسل اور کفن دیا جائے گا، انہیں آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کی تکلیف دہ موت پر انہیں یہ بشارت دی ہے کہ آخرت میں ان کو شہادت کا درجہ حاصل ہو گا اور ان کے ساتھ آخرت میں شہیدوں کی طرح اعزاز و اکرام والا معاملہ کیا جائے گا۔
نیز واضح رہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں شہید کے جو فضائل بیان کیے گئے ہیں، ان کے سیاق و سباق کے مضامین سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان فضائل کا اولین مصداق "شہید حقیقی" ہے اور شہید حقیقی کو بلا حساب و کتاب جنت میں داخل کیا جائے گا۔
البتہ چونکہ "شہید حکمی" کے متعلق احادیث میں صراحت آئی ہے، اس لیے اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے یہی امید رکھنی چاہیے کہ وہ آخرت کے اجر و ثواب کا معاملے میں شہید حقیقی کے ساتھ ہوں گے۔
جہاں تک شہید حکمی کے متعلق بغیر حساب و کتاب کا معاملہ ہے کہ وہ بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے، اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر موقوف ہے، وہ جس کو چاہے بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل فرمائے اور جس سے چاہے حساب و کتاب کا معاملہ فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (التوبة: الآية: 111)
"إِنَّ ٱللَّهَ ٱشۡتَرَىٰ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ أَنفُسَهُمۡ وَأَمۡوَٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلۡجَنَّةَۚ يُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيَقۡتُلُونَ وَيُقۡتَلُونَۖ وَعۡدًا عَلَيۡهِ حَقّٗا فِي ٱلتَّوۡرَىٰةِ وَٱلۡإِنجِيلِ وَٱلۡقُرۡءَانِۚ وَمَنۡ أَوۡفَىٰ بِعَهۡدِهِۦ مِنَ ٱللَّهِۚ فَٱسۡتَبۡشِرُواْ بِبَيۡعِكُمُ ٱلَّذِي بَايَعۡتُم بِهِۦۚ وَذَٰلِكَ هُوَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ" o
الدر المختار مع رد المحتار: (كتاب الصلاة، باب الشهيد، 247/2، ط: دار الفكر- بيروت)
"(هو كل مكلف مسلم طاهر) فالحائض إن رأت ثلاثة أيام غسلت وإلا لا لعدم كونها حائضا "ولم يعد عليه السلام غسل حنظلة لحصوله بفعل الملائكة"، بدليل قصة آدم (قتل ظلمًا) بغير حق (بجارحة) أي بما يوجب القصاص (ولم يجب بنفس القتل مال) بل قصاص، حتى لو وجب المال بعارض كالصلح أو قتل الأب ابنه لا تسقط الشهادة (ولم يرتث) فلو ارتث غسل كما سيجيء (وكذا) يكون شهيدًا (لو قتله باغ أو حربي أو قاطع طريق ولو) تسببا أو (بغير آلة جارحة) فإن مقتولهم شهيد بأي آلة قتلوه، لأن الأصل فيه شهداء أحد ولم يكن كلهم قتيل سلاح ... (فينزع عنه ما لا يصلح للكفن، ويزاد) إن نقص ما عليه عن كفن السنة (وينقص) إن زاد (ل) أجل أن (يتم كفنه) المسنون (ويصلى عليه بلا غسل ويدفن بدمه وثيابه) لحديث: "زملوهم بكلومهم".
رد المحتار: (252/2، ط: دار الفكر- بيروت)
"وكل ذلك في الشهيد الكامل، وإلا فالمرتث شهيد الآخرة وكذا الجنب ونحوه، ومن قصد العدو فأصاب نفسه، والغريق والحريق والغريب والمهدوم عليه والمبطون والمطعون والنفساء والميت ليلة الجمعة وصاحب ذات الجنب ومن مات وهو يطلب العلم، وقد عدهم السيوطي نحو الثلاثين.
(قوله: وكل ذلك) أي ما تقدم من الشروط وهي ست كما في البدائع: العقل والبلوغ والقتل ظلمًا، وأن لايجب به عوض مالي، والطهارة عن الحدث الأكبر، وعدم الارتثاث ط. مطلب في تعداد الشهداء (قوله: في الشهيد الكامل) وهو شهيد الدنيا والآخرة، وشهادة الدنيا بعدم الغسل إلا لنجاسة أصابته غير دمه كما في أبي السعود، وشهادة الآخرة بنيل الثواب الموعود للشهيد أفاده في البحر ط والمراد بشهيد الآخرة من قتل مظلوما أو قاتل لإعلاء كلمة الله تعالى حتى قتل فلو قاتل لغرض دنيوي فهو شهيد دنيا فقط تجري عليه أحكام الشهيد في الدنيا، وعليه فالشهداء ثلاثة. (قوله ونحوه) أي كالمجنون والصبي والمقتول ظلما إذا وجب بقتله مال (قوله: والمطعون) وكذا من مات في زمن الطاعون بغيره إذا أقام في بلده صابرا محتسبا فإن له أجر الشهيد كما في حديث البخاري. وذكر الحافظ ابن حجر أنه لايسأل في قبره أجهوري (قوله: والنفساء) ظاهره سواء ماتت وقت الوضع أو بعده قبل انقضاء مدة النفاس ط (قوله: والميت ليلة الجمعة) أخرج حميد بن زنجويه في فضائل الأعمال عن مرسال إياس بن بكير أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من مات يوم الجمعة كتب له أجر شهيد» أجهوري (قوله: وهو يطلب العلم) بأن كان له اشتغال به تأليفا أو تدريسا أو حضورا فيما يظهر، ولو كل يوم درس، وليس المراد الانهماك ط (قوله: وقد عدهم السيوطي إلخ) أي في التثبيت نحو الثلاثين...إلخ".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی