سوال:
جناب وراثت کے بارے میں معلوم کرنا ہے
2 بھائی اور 4 بہنیں ہیں اور والدہ،
وراثت کی تقسیم کیسے ہو گی والد صاحب کے انتقال کے بعد؟
جب کہ ایک بہن کا انتقال والد صاحب کے انتقال کے بعد ہوا ہے
کیا اسکو بھی حصہ ملے گا ؟ اسکا ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور شوہر ہے.
شکریہ
جواب: مرحومین کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل مال متروکہ و جائیداد کو دو ہزار تین سو چار (2304) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے آپ کی والدہ کو تین سو تیس (330) آپ دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو پانچ سو چار (504) زندہ بہنوں میں سے ہر ایک کو دو سو باون (252) مرحوم بہن کے شوہر کو تریسٹھ (63) مرحوم بہن کے بیٹے کو اٹھانوے (98) اور مرحوم بہن کی بیٹی کو اننچاس (49) حصے ملیں گے۔
فیصد کے اعتبار سے تقسیم اس طرح ہوگی:
والدہ % 14.32 فیصد
ہر ایک بھائی % 21.875 فیصد
ہر ایک زندہ بہن % 10.9375 فیصد
مرحوم بہن کا شوہر % 2.73 فیصد
مرحوم بہن کا بیٹا % 4.25 فیصد
مرحوم بہن کی بیٹی % 2.12 فیصد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11- 12)
یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ۔۔۔وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّکُمۡ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ تُوۡصُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ۔۔۔الایۃ
الھندیۃ: (447/6، ط: دار الفکر)
التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط۔۔۔ثم بالدين۔۔۔ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين۔۔۔ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث
و فیھا ایضاً: (448/6، ط: دار الفکر)
وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت وللبنتين فصاعدا الثلثان، كذا في الاختيار شرح المختار وإذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين، كذا في التبيين.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی