سوال:
مفتی صاحب! جمعہ کی پہلی اذان زوال سے پہلے دینا کیسا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جمعہ کی نماز کا وقت ظہر کی طرح زوال کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے، اس لیے زوال کا وقت ختم ہونے سے پہلے جمعہ کی پہلی اذان دینا درست نہیں ہے، اگر زوال کا وقت ختم ہونے سے پہلے جمعہ کی اذان دی گئی تو یہ اذان معتبر نہیں ہوگی، ایسی صورت میں زوال کا وقت ختم ہونے کے بعد جمعہ کی اذان کا اعادہ ضروری ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (كِتَابُ الجُمُعَةِ، بَابُ وَقْتُ الجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، رقم الحدیث: 904، ط: دار طوق النجاة)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ
صحيح مسلم: (كِتَابُ الْجُمُعَةِ، بَابُ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، رقم الحدیث: 860، ط: دار احیاء التراث العربی)
عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا نُجَمِّعُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ نَرْجِعُ نَتَتَبَّعُ الْفَيْءَ
الدر المختار مع رد المحتار: (385/1، ط: دار الفکر)
(فيعاد أذان وقع) بعضه (قبله) كالإقامة
(قوله: كالإقامة) أي في أنها تعاد إذا وقعت قبل الوقت، أما بعده فلا تعاد ما لم يبطل الفصل أو يوجد قاطع كأكل على ما سيذكره في الفروع.
البحرالرائق: (277/1، ط: دار الكتاب الإسلامي)
(قوله: ولا يؤذن قبل وقت ويعاد فيه) أي في الوقت إذا أذن قبله؛ لأنه يراد الإعلام بالوقت فلا يجوز قبله
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی