سوال:
مفتی صاحب! ماں کے ساتھ تین سالہ بچی عمرہ پر جا رہی ہے، کیا اس کو اسکارف یا گائون وغیرہ پہننا ضروری ہے یا نہیں؟ نیز خاتون کے عمرہ کرنے کا مسنون طریقہ بھی بتادیں۔
جواب: ۱) واضح رہے کہ تین سال کی بچی کو عمرہ پر لے جاتے ہوئے مکمل لباس کے ساتھ اسکارف بھی پہنائیں اور اس کا والد یا ولی اس کی طرف سے نیت کرکے تلبیہ پڑھے، حتی الامکان اسے ممنوعاتِ احرام سے بچایا جائے، لیکن اگروہ کوئی ممنوع فعل کرلے تو اس کی جزاء نہ بچی پر اور نہ ہی اس کے ولی یعنی والد وغیرہ پر واجب ہوگی۔
۲)خواتین کے عمرہ کا طریقہ یہ ہے کہ خواتین غسل یا وضو کر کے عمرہ کی نیت سے پورے سلے ہوئے صاف و پاک کپڑے پہن لیں، اس کے بعد اگر ماہواری نہ آرہی ہو تو دو رکعات نفل پڑھ کر ان الفاظ کے ساتھ عمرہ کی نیت کرلیں ’’اَللّٰھُمَ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ فَیَسِّرْھَا لِیْ وَ تَقَبَّلْھَا مِنِیْ ‘‘’’ :اے اﷲ !میں آپ کی رضا کے لیے عمرہ کرنا چاہتی ہوں، اسے میرے لیے آسان بنا اور قبول فرما‘‘، اس کے بعد عمرے کی نیت سے تلبیہ پڑھیں اور جب بیت اللہ میں داخل ہوں تو اگر فرض نماز کی جماعت کا وقت نہ ہو تو پہلا کام طواف کا ہی کریں، مطاف میں داخل ہو کر مردوں سے ہٹ کر حجر اسود کی سیدھ میں اس طرح کھڑی ہوں کہ حجرِ اسود دائیں طرف ہو اور پھر دونوں ہاتھ اپنے کاندھوں تک اس طرح اٹھائیں، جیسے نماز میں تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہیں، اور دونوں ہتھلیوں کا رخ حجراسود کی طرف کریں اور تکبیر وتہلیل کہیں، بسم الله، الله أکبر کہہ کر حجر اسود کے استلام کا صرف ہاتھ سے اشارہ کر دیں، کیونکہ خواتین کے لیے مردوں میں گھسنا منع ہے، پھر دائیں طرف مڑکر کعبۃ اللہ کا طواف شروع کریں اور سات چکر لگائیں اور اپنی چال کے مطابق چلیں، مردوں کی طرح تیز تیز نہ چلیں، طواف کے سات چکروں کے بعد مقامِ ابراہیم کے پاس یا حرم میں کسی بھی جگہ طواف کی دو رکعات نماز ادا کرلیں، پھر آبِ زم زم (خوب) سیر ہو کر پییں، پھر حجر اسود کا استلام کر کے سعی کرنے کے لیے صفا کا رخ کریں اور اس پر چڑھتے ہوئے پڑھیں '' إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ، أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللهُ بِه''، صفا پر چڑھ کر قبلہ رخ ہوکر تین مرتبہ "الله أکبر" کہیں، پھر تین مرتبہ یہ دعا پڑھیں: "لاإله إلا الله وحده لا شریک له، له الملک وله الحمد یحيي ویمیت وهو على کل شيءٍ قدیر، لا إله إلا الله وحده، انجز وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده" پھر صفا سے مروہ کی طرف چلنا شروع کریں اور جب سبز لائٹ کے پاس پہنچیں تو مردوں کی طرح دوڑ کر نہ چلیں، بلکہ اپنی عادت کے مطابق چلیں، چلتے ہوئے مروہ پہنچیں، اس طرح کل سات چکر لگائیں، سعی کرنے کے بعد پورے سر کے چوتھائی بالوں میں سے کم از کم ایک پورے (انگلی کے تہائی حصہ) کے بقدر بال کٹوائیں، اس کے بعد احرام کی پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔ اب خواتین چہرے سے کپڑا لگاسکتی ہیں۔
یہ بات واضح رہے کہ خواتین احرام کی حالت میں ہر قسم کے جوتے، چپل اور اپنے تمام سلے ہوئے کپڑے پہنی رہیں گی، البتہ چہرے کو ڈھانپنا منع ہے، تاہم غیر محارم سے اپنا چہرہ چھپانے کے لیے عورت حسب سہولت کوئی بھی ایسی صورت اختیار کرلے کہ پردہ بھی ہوجائے اور احرام کی پابندی پر عمل بھی، مثلاََ: ایسے ہیٹ (Hat) کا استعمال جس کے آگے چہرہ ڈھانپنے کے لیے کپڑا لگا ہوا ہو یا گھونگھٹ کو اس طرح گرائے رکھنا کہ پردہ بھی ہو اور کپڑا بھی چہرے پر نہ لگے، اس طرح کرنے سے دونوں حکموں پر عمل ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (466/2، ط: دار الفکر)
(فلو أحرم صبي عاقل أو أحرم عنه أبوه صار محرما) وينبغي أن يجرده قبله ويلبسه إزارا ورداء مبسوطين وظاهر أن إحرامه عنه مع عقله صحيح فمع عدمه أولى.....بخلاف الصبي(قوله بخلاف الصبي) لأن إحرامه غير لازم لعدم أهلية اللزوم عليه ولذا لو أحصر وتحلل لا دم عليه ولا قضاء ولا جزاء عليه لارتكاب المحظورات فتح.
الفتاوی الهندية: (237/1، ط: دار الفكر)
المفرد بالعمرة يحرم للعمرة من الميقات أو قبل الميقات في أشهر الحج أو في غير أشهر الحج ويذكر العمرة بلسانه عند التلبية مع قصد القلب فيقول لبيك بالعمرة أو يقصد بقلبه ولا يذكر بلسانه والذكر باللسان أفضل كذا في المحيط ويجتنب المحرم بالعمرة ما يجتنب المحرم بالحج ويفعل في إحرامه وطوافه وسعيه بين الصفا والمروة ما يفعله الحاج.فإذا طاف وسعى وحلق يخرج عن إحرام العمرة ويقطع التلبية كلما استلم الحجر في أصح الروايات كذا في الظهيرية.
البحر الرائق: (11/7)
( قوله: ثم احلق أو قصر و الحلق أحب ) ... والمراد بالتقصير أن يأخذ الرجل أو المرأة من رءوس شعر ربع الرأس مقدار الأنملة، كذا ذكر الشارح ، ومراده أن يأخذ من كل شعرة مقدار الأنملة.
غنية الناسك للعلامة محمد حسن شاه: (ص: 4، ط: إدارة القرآن)
هي فيه كالرجل غير أنها لاتكشف رأسها و تكشف وجهها والمراد بكشف الوجه عدم مماسة شيء له....فلو سدلت عليه شيئا وجافته عنه جاز منه حيث الإحرام لعدم كونه سترا،وإلا فسدل الشيء مستحب كمافي الفتح لكن في النهاية و المحيط أنه واجب،والتوفيق أن الاستحباب عند عدم الأجانب ،وأما عند وجودهم فالإرخاء واجب عليها عند الإمكان ،و عند عدمه يجب على الأجانب غض البصر...و لاتجهر بالتلبية ولاتضطبع ولاترمل ،ولاتسعى بين الميلين و لاتستلم الحجرإذا كان هناك الجمع ؛لأنها ممنوعة عن مماسة الرجال،إلاأن تجد الموضع خاليا،ولاتصلي عند المقام كذلك ،ولاتصعد الصفا عند المزاحمة ولاتحلق رأسها ؛لأنه مثلة كحلق الرجل لحيته ،بل تقصر من ربع شعرها كالرجل،وقصر الكل أفضل، و تلبس من المخيط مابدا لها كالدرع و القميص والسراويل والخفين والقفازين .
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی