سوال:
مفتی صاحب! میرے زکوة سے متعلق کچھ سوالات ہیں:
1) میری ماہانہ آمدنی تقریباً 2 لاکھ ہے، جس میں 117000 مقررہ تنخواہ اور آمدنی کا ایک اور ذریعہ شامل ہے جس میں جمع مائنس 20000 کا فرق ہے تو کل تقریباً 2 لاکھ ہو جاتا ہے۔ مہینے کے شروع میں میرا بینک بیلنس بڑھ کر 130000 جمع مائنس 20000 ہو جاتا ہے۔ آمدنی کی ادائیگی کے دوسرے ذرائع سے ادائیگی کی تاریخ طے نہیں ہے، لیکن مہینے کے آغاز سے میرا بینک بیلنس بڑھ کر 140k ہو جاتا ہے اور مہینے کے آخر میں تقریباً 20 ہزار جمع مائنس 10 ہزار تک حاصل کرنے کے لیے کافی ہے۔ برائے مہربانی میری آمدنی پر زکوٰۃ کے بارے میں میری رہنمائی کریں۔
2) اگر میں نے رجسٹریشن کے لیے تقریباً 6 لاکھ کے قریب رقم رکھی ہے تو کیا اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی؟
3) میرے والد کے پاس ایک پلاٹ ہے جو انہوں نے پیسے بچانے کے لیے ایک طویل مدتی سرمایہ کاری کے طور پر خریدا تھا، لیکن اب اس میں کچھ دکانیں ہیں اور باقاعدہ کرایہ ملتا ہے، ایسے پلاٹ کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟
4) والد صاحب کی کوئی آمدنی نہیں ہے، وہ پنشن خرچ پر استعمال کرتے ہیں تو کیا ان کو گھر چلانے کے لیے میری مدد کی ضرورت ہے؟
جزاک اللہ خیرا
جواب: 1) واضح رہے کہ زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے ماہانہ جمع خرچ اور آمدن یا اخراجات کا اعتبار نہیں ہے، بلکہ وجوب زکوٰۃ کے لیے نصاب اور سال گزرنا شرط ہے، یعنی اموالِ زکوٰۃ (سونا، چاندی، نقد رقم اور مالِ تجارت) میں سے کوئی ایک یا ان میں سے ایک سے زائد کو آپس میں ملاکر اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس کی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس دن آدمی کے پاس نصاب کے بقدر مال جمع ہو جائے اس دن سے چاند کے حساب سے ایک سال بعد بھی وہ نصاب کا مالک ہو، اگرچہ درمیان سال میں نصاب کم زیادہ ہوجائے، کیوں کہ اصل اعتبار سال کے پہلے اور آخری دن کا ہے۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ کی آمدنی میں سے جو رقم بچ کر سال بھر آپ کے پاس رہے تو صرف اس رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی، بشرطیکہ وہ نصاب کے بقدر ہو۔
2) جی ہاں! اس رقم کی زکوٰۃ آپ کے ذمہ لازم ہوگی، اگر یہ سال مکمل ہونے کے بعد بھی آپ کی ملکیت میں ہو، لیکن اگر سال مکمل ہونے سے پہلے یہ خرچ ہوکر نصاب سے کم رہ جائے تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
3) آپ کے والد نے چونکہ یہ پلاٹ بیچنے کی نیت سے نہیں خریدا تھا، بلکہ اپنی بنیادی رقم اور کرایہ وغیرہ کے ذریعے سرمایہ کی حفاظت کے لیے خریدا تھا، اس لیے اس پلاٹ کی مالیت پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، البتہ اس سے حاصل ہونے والے کرایہ پر زکوٰۃ واجب ہوگی، جبکہ وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے اور سال بھی گزر جائے۔
4) اگر آپ کے والد کی آمدن ان کی بنیادی ضروریات کے لیے کافی نہ ہو يا گھر كے اخراجات كی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہوں تو آپ کے ذمہ ان کا نان ونفقہ واجب ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (262/2، ط: دار الفکر)
الزكاة تجب في النقد كيفما أمسكه للنماء أو للنفقة، وكذا في البدائع في بحث النماء التقديري. اه.
قلت: وأقره في النهر والشرنبلالية وشرح المقدسي، وسيصرح به الشارح أيضا، ونحوه قوله في السراج سواء أمسكه للتجارة أو غيرها، وكذا قوله في التتارخانية نوى التجارة أولا، لكن حيث كان ما قاله ابن ملك موافقا لظاهر عبارات المتون كما علمت، وقال ح إنه الحق فالأولى التوفيق بحمل ما في البدائع وغيرها، على ما إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها، لكن يحتاج إلى الفرق بين هذا، وبين ما حال الحول عليه، وهو محتاج منه إلى أداء دين كفارة أو نذر أو حج، فإنه محتاج إليها أيضا لبراءة ذمته.
الدر المختار (267/2، ط: دار الفكر)
(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه …….. (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض فتصير للتجارة بلا نية صريحا………. (وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة…..والأصل أن ما عدا الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة بشرط عدم المانع المؤدي إلى الثنى وشرط مقارنتها لعقد التجارة وهو كسب المال بالمال بعقد شراء أو إجارة أو استقراض. ولو نوى التجارة بعد العقد أو اشترى شیئا للقنية ناويا أنه إن وجد ربحا باعه لا زكاة عليه.
الفتاوی الهندية: (174/1، ط: دار الفكر)
ونية التجارة والإسامة لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة أو الإسامة ثم نية التجارة قد تكون صريحا وقد تكون دلالة فالصريح أن ينوي عند عقد التجارة أن يكون المملوك للتجارة سواء كان ذلك العقد شراء أو إجارة وسواء كان ذلك الثمن من النقود أو العروض.وأما الدلالة فهي أن يشتري عينا من الأعيان بعروض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض من العروض فتصير للتجارة، وإن لم ينو التجارة صريحا.
الهداية: (95/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول.
المبسوط للسرخسي: (222/5، ط: دار المعرفة)
ويجبر الرجل الموسر على نفقة أبيه وأمه إذا كانا محتاجين لقوله تعالى {فلا تقل لهما أف} [الإسراء: 23] نهى عن التأفيف لمعنى الأذى، ومعنى الأذى في منع النفقة عند حاجتهما أكثر؛ ولهذا يلزمه نفقتهما، وإن كانا قادرين على الكسب؛ لأن معنى الأذى في الكد والتعب أكثر منه في التأفيف وقال: - صلى الله عليه وسلم - «إن أطيب ما يأكل الرجل من كسبه، وإن ولده لمن كسبه؛ فكلوا مما كسب أولادكم».
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی