سوال:
مفتی صاحب! ہمارے ہاں بچے کی پیدائش متوقع ہے اور ہم اس کا نام محمد رافیل داؤد رکھنا چاہتے ہیں۔ اس نام کا کیا مطلب ہے؟
جواب: واضح رہے کہ "محمد" اور داؤد" دونوں انبیائے کرامؑ کے ناموں میں سے ہیں، اور قرآن شریف میں موجود ہیں، لہٰذا "محمد داود" نام رکھنا درست ہے۔ تاہم "رافیل" کا لفظ عربی لغت کی کتابوں میں نہیں ملا، البتہ اس سے ملتا جلتا لفظ "رافِل" کا لفظ موجود ہے، لیکن اس کا معنیٰ ہے: "تکبر کرنے والا، اِتراکر چلنے والا" (القاموس الوحید: 652)، نیز "رافیل" کا نام زیادہ تر یہود و نصاریٰ میں رائج ہے، اس لیے "رافیل" اور "رافِل" (Raafeel )نام رکھنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (الأحزاب، الآية: 40)
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا •
القرآن الكريم: (النمل، الآية: 15)
وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَى كَثِيرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ •
جمع الجوامع: (رقم الحديث: 183/ 8873، ط: الأزهر الشريف، القاهرة)
"أَوَّلُ مَا يُنْحِلُ الرَّجُلُ وَلَدَهُ اسْمُهُ فَليُحْسِنْ اسْمَهُ".
القاموس الوحید: 652
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی