سوال:
مفتی صاحب! ہمارے دادا کا انتقال دسمبر 2020 کو ہوا تھا, قبرستان والوں نے ایک سال کے اندر ہی ان کی قبر ختم کر کے دوسری قبر بنا دی، پھر ایک سال بعد وہ دوسری قبر بھی ختم کر کے اس جگہ تیسری قبر بنا دی۔ ہم نے جب پوچھا تو وہ کہتے ہیں کہ مردے کو مٹی کے اندر کر دیا ہے، کیا یہ عمل جائز ہے اور کیا اس میں مردے کو تکلیف پہنچتی ہوگی؟
جواب: اگر قبر اتنی پرانی اور بوسیدہ ہوجائے کہ جس کے اندر میّت کے مٹی ہوجانے کا یقین یا غالب گمان ہوجائے تو بوقتِ ضرورت ایسی قبر میں کسی دوسری میت کو دفن کرنا جائز ہے، اور اس کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے، البتہ پہلے مردے کی کوئی ہڈی وغیرہ موجود ہو تو اسے باہر پھینکنا جائز نہیں ہے، بلکہ اسے کسی کپڑے وغیرہ میں لپیٹ کر اسی قبر کے کسی ایک کونے میں دفن کردیا جائے۔
اور اگر پہلی میت کے بالکل مٹی ہوجانے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو تو اس میں دوسری میت کو دفنانا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں میت کی بے حرمتی اور حق تلفی ہے جو کہ ناجائز ہے۔ البتہ شدید ضرورت کے وقت مٹی کی آڑ بناکر صحیح سالم میت کے ساتھ دوسری میت کو دفن کرنے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (233/2، ط: دار الفکر)
(قوله وحفر قبره إلخ).... وأشار بإفراد الضمير إلى ما تقدم من أنه لا يدفن اثنان في قبر إلا لضرورة، وهذا في الابتداء، وكذا بعده. قال في الفتح، ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لا يوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب...... وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اه.....إلخ.
بدائع الصنائع: (319/1، ط: دار الکتب العلمية)
ولا يدفن الرجلان أو أكثر في قبر واحد هكذا جرت السنة من لدن آدم إلى يومنا هذا، فإن احتاجوا إلى ذلك قدموا أفضلهما وجعلوا بينهما حاجزا من الصعيد لما روي عن النبي- صلى الله عليه وسلم-: "أنه أمر بدفن قتلى أحد وكان يدفن في القبر رجلان، أو ثلاثة، وقال: قدموا أكثرهم قرآنا".
الفتاوى الهندية: (166/1، ط: دار الفکر)
ولا يدفن اثنان أو ثلاثة في قبر واحد إلا عند الحاجة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی