resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: کسی عزیز کے انتقال پر صبر کرنے والے کے لیے انعامات اور جنّت کی خوشخبری (33483-No)

سوال: مفتی صاحب! میرے شوہر کا 48 سال کی عمر میں انتقال ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے، مجھے صبر نہیں آ رہا ہے، دن بہ دن جینا مشکل ہوتا جا رہا ہے، کیا کروں؟ رہنمائی فرمائیں۔ میرے مرحوم شوہر نے اپنی آواز میں تلاوت قرآن کی ریکارڈنگ موبائل میں کی تھی، کیا وہ میں سن سکتی ہوں؟ کیا اس کا ثواب میرے شوہر کو پہنچے گا؟

جواب: دنیا میں ہر مخلوق ایک مخصوص وقت کے لیے آتی ہے اور جب اس کا مخصوص وقت ختم ہو جاتا ہے تو وہ اس دنیا سے چلی جاتی ہے۔ ہم سب کے سردار، آقا اور مولا جناب نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے رپردہ پرنے پر جب صحابہؓ غم سے نڈھال تھے تو ایسے وقت میں حضرت ابوبکر ؓنے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی، پھر فرمایا: "توجہ سے سنو"! جو شخص حضرت محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت محمد ﷺ کی وفات ہوچکی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو بے شک اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’(اے پیغمبر) بے شک موت تمہیں بھی آنی ہے اور موت ان کو بھی آنی ہے" نیز یہ آیت بھی تلاوت فرمائی: ’’حضرت محمد ﷺ صرف رسول ہیں۔ آپ سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔۔۔ الخ (صحیح البخاری، حدیث نمبر:3668)
جس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کسی بھی مخلوق کو بقا نہیں ہے، ہمیشہ رہنے والی ذات صرف اللہ رب العزت کی ہے، اور ہم سب اللہ کے ہیں اور ہم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
یقیناً زندگی میں کچھ رشتے ہماری ذات کا حصہ بن جاتے ہیں، جیسے: والدین، بہن بھائی، شریک حیات، اولاد یا کوئی قریبی دوست وغیرہ، اور جب موت کا اٹل فیصلہ ان ہستیوں کو ہم سے جدا کرتا ہے تو دل کو شدید صدمہ اور گہرا غم ہوتا ہے، ایسے وقت میں اپنے عزیز کی جدائی کے غم و صدمہ کے باوجود ایک مومن بندہ کو اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا پاس و لحاظ رکھنا اور صبر کا دامن تھامے رکھنا نہایت ضروری ہے، چنانچہ روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بچے کی موت کے غم میں رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور صبر کرو “، اس عورت نے کہا: آپ کو میری مصیبت کا کیا پتا ؟ تو اس سے کہا گیا: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں (جب اس کو اس بات کی خبر ہوئی) تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ کے دروازے پہ اسے کوئی دربان نہیں ملا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو“ یا فرمایا: ”صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو“۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر:3124)
صبر کرنے والے کے لیے بے شمار انعامات، مغفرت اور جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
قرآن شریف کی آیات کا ترجمہ ہے: "اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو ۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ “ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں۔" (سورہ بقرہ، آیت نمبر:155، 156، 157)
حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس مومن بندے کا جس کی، میں کوئی عزیز چیز دنیا سے اٹھا لوں اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کر لے تو اس کا بدلہ میرے یہاں جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔“ (صحیح البخاری، حدیث نمبر:6424)
لہذا آپ اس صدمہ پر صبر کر کے ان اجر، انعامات اور جنت کی خوشخبری کے پروانے حاصل کرنے کی کوشش کریں، اس کے ساتھ ساتھ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا (ترجمہ: بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اے اللہ! میری مصیبت میں مجھے اجردے اور اس کے عوض مجھے اس کا اچھابدلہ عنایت فرما) کثرت سے پڑھنے کا اہتمام فرمائیں، ان شاء اللہ! امید ہے کہ اللہ پاک آپ کو صبر کے ساتھ ساتھ بہتر بدل بھی عطا فرمائیں گے۔ نیز آپ اپنے شوہر کی قرآن کریم کی ریکارڈنگ سن سکتی ہیں اور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ آپ کے شوہر کو اس کا ثواب پہنچے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (العمران، الایة:185)
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ

و قوله تعالیٰ: (الاعراف، الایة:34)
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ

و قوله تعالیٰ: (البقرة، الایة: 155، 156، 157)
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ

صحیح البخاری: (باب قول النبى صلى الله عليه وسلم: لو كنت متخذا خليلا، رقم الحدیث:3668، ط: دار طوق النجاة)
فحمد الله ابو بكر واثنى عليه، وقال:" الا من كان يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم فإن محمدا قد مات , ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت"، وقال: إنك ميت وإنهم ميتون سورة الزمر آية 30، وقال: وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل افإن مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين سورة آل عمران آية 144، قال: فنشج الناس يبكون ، قال: واجتمعت الانصار إلى سعد بن عبادة في سقيفة بني ساعدة، فقالوا: منا امير ومنكم امير فذهب إليهم ابو بكر , وعمر بن الخطاب , وابو عبيدة بن الجراح، فذهب عمر يتكلم فاسكته ابو بكر وكان عمر، يقول: والله ما اردت بذلك إلا اني قد هيات كلاما قد اعجبني خشيت ان لا يبلغه ابو بكر ثم تكلم ابو بكر فتكلم ابلغ الناس، فقال: في كلامه نحن الامراء وانتم الوزراء، فقال: حباب بن المنذر لا والله لا نفعل منا امير ومنكم امير، فقال ابو بكر: لا ولكنا الامراء وانتم الوزراء هم اوسط العرب دارا واعربهم احسابا , فبايعوا عمر او ابا عبيدة بن الجراح، فقال عمر: بل نبايعك انت فانت سيدنا وخيرنا , واحبنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاخذ عمر بيده فبايعه وبايعه الناس، فقال: قائل قتلتم سعد بن عبادة، فقال: عمر قتله الله.

صحیح البخاری: (كتاب الرقاق، باب العمل الذى يبتغى به وجه الله، رقم الحدیث:6424، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا قتيبة، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن عمرو، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يقول الله تعالى:" ما لعبدي المؤمن عندي جزاء إذا قبضت صفيه من اهل الدنيا ثم احتسبه، إلا الجنة".

صحیح مسلم: (باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، رقم الحدیث:1631، ط: دار احیاء التراث العربی)
حدثنا يحيى بن ايوب ، وقتيبة يعني ابن سعيد وابن حجر ، قالوا: حدثنا إسماعيل وهو ابن جعفر ، عن العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة، إلا من صدقة جارية، او علم ينتفع به، او ولد صالح يدعو له ".

سنن ابی داؤد: (كتاب الجنائز، باب الصبر عند الصدمة، حدیث نمبر:3124، ط: دارالرسالة)
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عثمان بن عمر، حدثنا شعبة، عن ثابت، عن انس، قال: اتى نبي الله صلى الله عليه وسلم على امراة تبكي على صبي لها، فقال لها" اتقي الله، واصبري، فقالت: وما تبالي انت بمصيبتي؟ فقيل لها: هذا النبي صلى الله عليه وسلم، فاتته، فلم تجد على بابه بوابين، فقالت: يا رسول الله، لم اعرفك. فقال: إنما الصبر عند الصدمة الاولى، او عند اول صدمة".

صحیح مسلم: (كتاب الجنائز، باب ما يقال عند المصيبة: رقم الحدیث: 918، ط: دار احیاء التراث العربی)
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، عن سعد بن سعيد ، قال: اخبرني عمر بن كثير بن افلح ، قال: سمعت ابن سفينة يحدث، انه سمع ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من عبد تصيبه مصيبة فيقول: إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم اجرني في مصيبتي، واخلف لي خيرا منها، إلا اجره الله في مصيبته، واخلف له خيرا منها"، قالت: فلما توفي ابو سلمة قلت كما امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخلف الله لي خيرا منه رسول الله صلى الله عليه وسلم.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Funeral & Jinaza