سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! سوال یہ کرنا ہے کہ ہماری برادری میں یہ رواج ہے کہ جب کسی کا انتقال ہوجاتا ہے تو میت کے لواحقین کی طرف سے دوسرے یا تیسرے دن زیارت کے نام سے مسجد میں بیان رکھنا جاتا ہے جس میں مسجد کے امام صاحب اصلاحی بیان فرماتے ہیں اور اس بیان میں تعزیت کے لیے آنے والے لوگ جمع ہوتے ہیں اور عورتوں کے لیے بھی الگ سے گھر میں یا باہر روڈ پر یا گلی میں قناتیں لگا کر بیان سننے کا انتظام ہوتا ہے، ہمارے یہاں یہ بیان عملاً ضروری اور لازم اور تعزیت کا جزء سمجھا جاتا ہے، گویا اس کے بغیر تعزیت کا عمل ادھورا شمار کیا جاتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا شریعت میں تعزیت کے احکامات میں سے ایسے کسی عمل کا ثبوت ملتا ہے؟ اور اگر نہیں ملتا تو اسے لازم اور ضروری سمجھنا شرعی نقطہ نظر سے کس زمرے میں آتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مسلمان کے انتقال پر میّت کے متعلّقین سے تعزیت کرنا سنّت سے ثابت ہے، تعزیت کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کے متعلّقین کے پاس جاکر ان کی غم خواری کی جائے، ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جائے، ان کو تسلّی دی جائے اور صبر کی تلقین کے ساتھ میت کے حق میں دعائے خیر کی جائے۔
مذکورہ بالا طریقہ کے علاوہ کوئی خاص عمل تعزیت کا حصہ نہیں ہے، اور نہ ہی میت کے ایصالِ ثواب کیلئے کوئی خاص اجتماعی شکل سنت سے ثابت ہے، لہٰذا تعزیت کے تیسرے دن اس اہتمام کے ساتھ بیان کرنا کہ اس کو ضروری، لازم اور تعزیت کا جزو سمجھا جانے لگے اور بیان کے بغیر تعزیت کو ادھورا سمجھا جائے تو یہ درست عمل نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 1284، ط: دار طوق النجاة)
عن أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: "أَرْسَلَتِ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ: إِنَّ ابْنًا لِي قُبِضَ فَأْتِنَا، فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلَامَ، وَيَقُولُ: إِنَّ لِلهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ. فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا، فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَرِجَالٌ، فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ، قَالَ: حَسِبْتُهُ أَنَّهُ قَالَ: كَأَنَّهَا شَنٌّ، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا؟ فَقَالَ: هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ.
الدر المختار مع رد المحتار: (240/2، ط: ایچ ایم سعید)
یکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة،
وقوله: ویکره اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلی القبرفي المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقرّآء للختم أو لقراء ة سورة الإنعام أوالإخلاص.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی