سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک شخص کی بیوی نے شوہر کو یہ کہا کہ اگر میں نے تمھاری ایک بات بھی مانی تو میں ہندو باپ سے پیدا ہوں گی اور پھر وہ قسم توڑ دے تو اس قسم کا کیا حکم ہوگا اور کیا بیوی پر کفارہ آئے گا یا نہیں؟
جواب: مذکورہ الفاظ سے کہنے والی کے مراد یہ ہے کہ "اگر میں نے تمہاری ایک بات بھی مانی تو میں ہندو ہوں گی"، یہ قسم کے الفاظ ہیں، ان سے قسم منعقد ہوجاتی ہے، اور قسم توڑنے کی صورت میں کفارہ بھی لازم ہوتا ہے، البتہ ایسے الفاظ ادا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں مذکورہ خاتون پر قسم کا کفارہ ادا کرنا لازم ہے، قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو صبح شام (دو وقت) پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے یا دس مساکین میں سے ہر مسکین کو پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دیدی جائے یا دس مسکینوں کو ایک ایک جوڑا کپڑوں کا دیدیا جائے، اور اگر قسم کھانے والا غریب ہے اور مذکورہ امور میں سے کسی پر استطاعت نہیں رکھتا تو پھر کفارہ قسم کی نیت سے مسلسل تین دن تک روزے رکھنے سے بھی قسم کا کفارہ ادا ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیة: (54/4، ط: دار الفکر)
ولو قال: إن فعل كذا فهو يهودي، أو نصراني، أو مجوسي، أو بريء من الإسلام، أو كافر، أو يعبد من دون الله، أو يعبد الصليب، أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرا فهو يمين استحسانا كذا في البدائع. حتى لو فعل ذلك الفعل يلزمه الكفارة، وهل يصير كافرا اختلف المشايخ فيه قال: شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -: والمختار للفتوى أنه إن كان عنده أنه يكفر متى أتى بهذا الشرط، ومع هذا أتى يصير كافرا لرضاه بالكفر، وكفارته أن يقول: لا إله إلا الله محمد رسول الله، وإن كان عنده أنه إذا أتى بهذا الشرط لا يصير كافرا لا يكفر، وهذا إذا حلف بهذه الألفاظ على أمر في المستقبل.
کذا فی فتاویٰ دار العلوم دیوبند: 399-360/M=4/1439
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی