سوال:
مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ میں نے اپنی بیوی قرآن پر ہاتھ رکھوا کر قسم لی کہ تم نے آ ج کے بعد اپنی بہن سے بات نہیں کرنی، اگر کی تو نکاح ختم، اس نے قسم دے دی کہ نہیں کروں گی، اس کے بعد اس کی بہن کا فون آیا، اس نے کال نہیں اٹھائی، جب بار بار کال آ رہی تھی تو اس نے ریسیو کر کے اپنی والدہ کو دے دی۔ اب میری بیوی اپنی والدہ کو کہتی کہ وہ اس کی والدہ اس کی بہن کو بتاتی، میں نے سنا ہے کہ ایسے قسم نہیں ٹوٹتی۔ اس کے کچھ دن بعد میں نے قسم توڑ دی، مطلب واپس لے لی، کفارہ ادا کرنے کا ارادہ کیا تو کہتے ہیں کہ یہ قسم نہیں توڑی جا سکتی، کیونکہ آ پ نے آ ج کے بعد کہا ہے۔ کچھ دن بعد میری بیوی نے اپنی بہن سے بات کر لی، اب کیا حکم ہے؟ کیا ہمارا نکاح ختم ہوگیا ہے؟ بیوی سے قسم میں نے اٹھوائی تھی، اس نے جان بوجھ کر نہیں اٹھائی ہے، تو قسم کا کفارہ میں ہی دوں گا یا بیوی دے گی؟
جواب: واضح رہے کہ "نکاح ختم" طلاق کے کنائی الفاظ میں سے ہے، اگر طلاق کی نیت سے یہ الفاظ ادا کیے جائیں تو اس سے ایک بائن طلاق واقع ہو جاتی ہے، اور اگر ان الفاظ سے طلاق دینے کی نیت نہ ہو تو پھر ان سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
پوچھی گئی صورت میں قسم توڑنے کی وجہ سے آپ کی بیوی پر کفارہ ادا کرنا لازم ہے،(جس کی تفصیل سابقہ فتویٰ میں ذکر کردی گئی ہے) چونکہ آپ نے بہن سے بات کرنے پر طلاق کو بھی معلق کیا ہے، اور طلاق اگر کسی شرط کے ساتھ معلق کردی جائے تو شرط پوری ہونے پر طلاق واقع ہو جاتی ہے اور ایک مرتبہ شرط کے ساتھ معلق کر دینے کے بعد شوہر کو طلاق واپس لینے کا اختیار نہیں ہوتا، اس لیے اپنی بہن سے بات کرتے ہی آپ کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے۔
ایک طلاق بائن کے بعد میاں بیوی کو دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے دورانِ عدت یا عدت گزر جانے کے بعد دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا پڑے گا، جس کے بعد شوہر کے پاس صرف دو طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (375/1، ط: مکتبة رشیدیة)
و لو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى.
و فیه ایضاً: (420/1، ط: مکتبة رشیدیة)
ووإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی