عنوان: یتیم خانے میں زکوۃ کى رقم دینا اور یتیم خانے کے ملازمین کو زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہیں دینا کیسا ہے؟ (15804-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا یتیم خانوں میں زکوۃ کی رقم دینا جائز ہے؟ ان یتیم خانوں کو کچھ ادارے چلاتے ہیں اور اس میں عموماً نابالغ بچے ہوتے ہیں اور اسی رقم سے ملازمین کی تنخواہ دی جاتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب: 1) واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی شرعاً درست ہونے کے لیے زکوۃ کی تملیک ضروری ہے، یعنی زکوٰۃ کی رقم خود مستحق شخص یا اس کے وکیل کو مالک بنا کر دی جائے، جہاں تملیک کا اہتمام نہ کیا جاتا ہو، وہاں زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے، لہٰذا جو رفاہی ادارہ مثلاً یتیم خانہ وغیرہ شرعی اصولوں کے مطابق مستحق لوگوں کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے ان کا وکیل بنتا ہے، (مثلاً: تحریری طور پر مستحق یتیموں کی طرف سے یا ان کے سرپرستوں کی طرف سے وکالت نامہ پر دستخط کروا لیتا ہے) اور پھر مستحقین کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرتا ہے اور مستحق افراد کے ہی مصارف میں اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کے لیے ان سے اجازت بھی حاصل کرتا ہے، تو ایسے ادارے میں زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
نیز یتیم خانہ میں عموماً چھوٹے بچے ہوتے ہیں، ان کے لیے از خود زکوۃ وصول کرنا یا ادارے کے منتظمین کو اپنا وکیل بنانا بھى ممکن نہیں ہوتا ہے، ایسى صورت میں یتیم کے سرپرستوں کى طرف سے یتیم خانہ کے منتظمین کو یتیم کے لیے زکوۃ کى وصولى کا وکیل بنایا جانا ضرورى ہوتا ہے، اس بات کا اطمینان کرنا بھی ضروری ہے۔
2) زکوۃ اور صدقات واجبہ کی رقم سے ملازمین کو تنخواہیں دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ زکوۃ کسی چیز یا کام کے عوض میں نہیں دی جاسکتی، لہذا دیگر عطیات اور صدقات نافلہ میں سے تنخواہ دی جائے، البتہ اگر زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کے علاوہ رقم نہ ہو تو ایسی شدید مجبوری کی صورت میں مذکورہ بالا طریقے کے مطابق وکالت نامہ پر دستخط لینے کے بعد تنخواہ کی مد میں زکوۃ کی رقم خرچ کرنے کی گنجائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (كتاب الزكاة، باب مصارف الزكاة، 344/2، ط: دار الفكر)
"‌ويشترط ‌أن ‌يكون ‌الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)".

بدائع الصنائع: (39/2، ط: دار الكتب العلمية)
"ولو دفع زكاته إلى الإمام أو إلى عامل الصدقة يجوز؛ لأنه نائب عن الفقير في القبض فكان قبضه كقبض الفقير.
وكذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه.
وكذا لو قبض عنه بعض أقاربه وليس ثمة أقرب منه وهو في عياله يجوز، وكذا الأجنبي الذي هو في عياله؛ لأنه في معنى الولي في قبض الصدقة لكونه نفعا محضا ألا ترى أنه يملك قبض الهبة له؟ ، وكذا الملتقط إذا قبض الصدقة عن اللقيط؛ لأنه يملك القبض له فقد وجد تمليك الصدقة من الفقير، وذكر في العيون عن أبي يوسف أن من عال يتيما فجعل يكسوه ويطعمه وينوي به عن زكاة ماله يجوز وقال محمد: ما كان من كسوة يجوز وفي الطعام لا يجوز إلا ما دفع إليه، وقيل: لا خلاف بينهما في الحقيقة؛ لأن مراد أبي يوسف ليس هو الإطعام على طريق الإباحة بل على وجه التمليك، ثم إن كان اليتيم عاقلا يدفع إليه وإن لم يكن عاقلا يقبض عنه بطريق النيابة ثم يكسوه ويطعمه؛ لأن قبض الولي كقبضه لو كان عاقلا ولا يجوز قبض الأجنبي للفقير البالغ العاقل إلا بتوكيله؛ لأنه لا ولاية له عليه فلا بد من أمره كما في قبض الهبة".

الدر المختار مع رد المحتار: (356/2، ط: سعید)
"ولو دفعها المعلم لخلیفته إن کان بحیث یعمل له لو لم یعطه صح، و إلا لا".
"(قوله: وإلا لا )؛ لأن المدفوع یکون بمنزلة العوض".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 400 Mar 07, 2024
yateem khane mein zakat ki raqam dena or yateem khane ke mulazmeen ko zakat ki raqam se tankhain dena kesa hai?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.