سوال:
جناب مفتی صاحب! ایک دن میں پریشانی کی حالت میں گھر آیا اور بیوی سے کسی بات پر تکرار بڑھ گئی اور جھگڑے کی شکل اختیار کرگئی اور غصے کی حالت میں میں نے اپنی بیوی کو نام سے مخاطب کرکے کہا " سلمی تاتہ طلاق درکوم "یعنی سلمی تجھے طلاق دیتاہوں ۔اب مجھے اتنا یاد ہے کہ میں نے یہ الفاظ ایک دفعہ سے زیادہ کہے ہیں، میری بیوی کا کہناہے کہ تین دفعہ کہے ہیں اور وہ اسی کے ساتھ مجھے سے جدا بھی ہوگئی ہے، بعدمیں جب چند مشران نے ان سے پوچھا کہ تین دفعہ کیا الفاظ کہے ہیں؟ تو میری بیوی نے جواب دیا کہ مجھے تین دفعہ یاد ہے، لیکن یہ یقین نہیں کہ یہی الفاظ تین دفعہ دہرائے ہیں۔
اسی وقت گھر میں میری والدہ اور بہن موجود تھیں، ان کا کہنا ہے کہ دو دفعہ مذکورہ الفاظ دہرائے اور تیسری دفعہ یہ الفاظ کہے ہیں " سلمی سم شہ گوری طلاق بہ درکم" یعنی سلمی ٹھیک ہوجاؤ، ورنہ طلاق دے دوں گا ۔
اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں ہمارے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟ اس صورت میں کونسی طلاق واقع ہوگی؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں عورت کا دعوی تین طلاقوں کا ہے، لیکن اس کے پاس اپنے دعوی پر شرعی گواہ (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) موجود نہیں ہیں اور عورت کو بھی طلاق کے الفاظ ٹھیک طرح سے یاد نہیں ہے، لہذا ایسی صورت میں شوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی۔
چونکہ شوہر ایک سے زائد دفعہ طلاق کے الفاظ کہنے کا اعتراف کرتا ہے، لیکن یقینی طور پر تین دفعہ طلاق کے الفاظ کہنا اسے یاد نہیں ہے، لہذا اگر شوہر کو یقین یا غالب گمان ہے کہ اس نے تین دفعہ طلاق نہیں دی ہے اور اس بات پر قسم بھی کھا لیتا ہے تو اس کی بیوی پر صرف دو طلاقیں رجعی واقع ہوں گی اور شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا، اس لیے شوہر پر لازم ہے کہ آئندہ اس معاملے میں سخت احتیاط کرے۔
نوٹ: مفتی غیب کا علم نہیں جانتا، وہ سائل کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق جواب دیتا ہے، لہذا مذکورہ بالا جواب سوال میں ذکر کردہ معلومات کے مطابق سمجھا جائے، لیکن اگر عورت کو اس بات کا یقین یا غالب گمان ہو کہ اس کے شوہر نے اس کو تین دفعہ یہ جملہ "سلمیٰ تجھے طلاق دیتا ہوں" کہا تھا تو ایسی صورت میں عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ شوہر کو اپنے قریب آنے دے، بلکہ اس سے کسی بھی صورت خلاصی حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
غمز عيون البصائر في شرح الأشباه و النظائر: (204/1، ط: دار الكتب العلمية)
٢٨ - قاعدة من شك هل فعل شيئا أم لا ٢٩ - فالأصل أنه لم يفعل وتدخل فيها قاعدة أخرى من تيقن الفعل وشك في القليل، والكثير حمل على القليل؛ لأنه المتيقن
قوله: قاعدة: من شك هل فعل. في فتح القدير: اعلم أن مراد الفقهاء بالشك في الماء، والحدث والنجاسة والصلاة، والعتق والطلاق وغيرها هو التردد بين وجود الشيء وعدمه سواء كان الطرفان في التردد سواء، أو أحدهما راجحا، فهذا معناه في استعمال الفقهاء
العناية شرح الهداية: (370/7، ط: دار الفكر)
(قال: وما سوى ذلك من الحقوق يقبل فيها شهادة رجلين أو رجل وامرأتين سواء كان الحق مالا أو غير مال مثل النكاح) والطلاق والعتاق والعدة والحوالة والوقف والصلح (والوكالة والوصية) والهبة والإقرار والإبراء والولد والولاد والنسب ونحو ذلك.
الفتاوی الھندیة: (354/1، ط: دار الفکر)
والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی