عنوان: سلامی کے لفافوں کا حکم (15862-No)

سوال: مجھے یہ پوچھنا تھا کہ شادی کے وقت میں جو لفافے سلامی کے ملتے ہیں، وہ دلہن، دلہا یا والدین میں سے کس کا حق ہوتے ہیں؟ بعض علاقوں میں یہ ہوتا ہے کہ والد شادی کا خرچہ کرتے ہیں تو وہ سلامی کے پیسے لے لیتے ہیں، پھر بعض مرتبہ سلامی والد کو دکھا کر دی جاتی ہے، پھر یہ بعض مرتبہ دلہے اور دلہن کو دی جاتی ہے، بعض مرتبہ دلہے کے والد کو دی جاتی ہے۔

جواب: واضح رہے کہ شادی کے موقع پر ملنے والے سلامی کے لفافے اگر دکھلاوے یا نام و نمود کی نیت سے ہوں یا واپسی کی غرض سے اس رقم کو لکھوایا جائے یا بغیر خوشدلی کے مجبور ہو کر دی جائے تو ایسی صورت میں اس رقم کا لین دین جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔
تاہم اگر اوپر ذکر کردہ مفاسد نہ پائے جائیں، بلکہ محض تعاون اور صلہ رحمی کی نیت سے دلی رضامندی کے ساتھ بطورِ تحفہ اس رقم کا لین دین کیا جائے اور واپسی کی غرض سے اس رقم کو لکھوایا نہ جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ اسی کا حق ہیں جس کو دیئے جائیں، اگر والد یا والدہ کو دی ہے تو والد یا والدہ ہی اس کی مالک ہے، اور اگر دلہا یا دلہن کو دی ہے تو دلہا یا دلہن اس کی مالک ہے، ان کی رضامندی کے بغیر ان سے لینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر دلہا اپنی خوشی یا پہلے سے مفاہمت (Understanding) کی وجہ سے اپنے والدین یا گھر کے بڑوں کو دینا چاہے تو اس کی اجازت ہے، بلکہ یہ بیٹے کے لیے بڑی خوش بختی کی بات ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الكريم: (البقرة، الآية: 188)
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ o

القرآن الكريم: (الروم، الآية: 39)
وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ o

رد المحتار: (696/5، ط: دار الفكر)
وفي الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في ‌الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم ‌القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا اه.
قلت: والعرف في بلادنا مشترك نعم في بعض القرى يعدونه فرضا حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه»

کذا في فتاویٰ دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 549/39 و 1448/26

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 367 Apr 26, 2024
salami ke lifafo lifafon ka hokum hokom

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.