سوال:
مفتی صاحب! مجھے منت ماننے کا درست طریقہ بتادیں۔
جواب: واضح رہے کہ نذر (منت) درج ذیل شرائط کے ساتھ معتبر ہوتی ہے:
1) نذر (منت) اللہ تعالى کے نام کى مانى جائے، لہذا غیر اللہ کے نام مثلا: کسى نبى یا ولى کى نذر شرعاً معتبر نہیں ہے۔
2) جس کام کى نذر (منت) مانى جائے، وہ کام عبادت کا کام ہو، کوئی گناہ کا کام نہ ہو۔
3) نذر (منت) کے ذریعے اپنے اوپر ایسى چیز لازم کى جائے جس کی اصل شریعت میں عبادت مقصودہ کی شکل میں پہلے سے موجود ہو، یعنى ایسے کام کى نذر مانى جائے جو کہ شریعت میں فرض یا واجب کا درجہ رکھتا ہو، مثلا: نماز، روزہ، حج اور قربانى وغیرہ، یعنی ان عبادات میں سے کسى کام کو اپنے اوپر بطورِ نذر لازم کیا جائے، مثلا: دو رکعت نذر مانی یا روزہ رکھنے کی نذر مانی یا قربانی کرنے کی نذر مانی تو یہ سب منتیں معتبر ہیں، کیونکہ نماز، روزہ اور قربانی شرعاً عبادات مقصودہ ہیں۔
4) جس کام کی نذر مانی جائے وہ کام فی الحال اس شخص پر فرض یا واجب نہ ہو، مثلاً: کوئی شخص کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں فجر کی نماز ادا کروں گا تو یہ نذر معتبر نہیں ہے، کیونکہ فجر کی نماز پہلے سے ہی فرض ہے۔
5) نذر (منت) کے الفاظ زبان سے ادا کیے جائیں، صرف دل ہی دل میں ارادہ کرنے سے نذر منعقد نہیں ہوتی ہے۔
6) نذر (منت) کے الفاظ پختہ ارادے والے ہوں، یعنی ایسے الفاظ ہوں کہ اس سے کوئی چیز لازم ہوتی ہو، لہذا اگر نذر مانتے ہوئے یہ کہا جائے کہ اگر میرا فلاں کام ہو جائے تو "ان شاءاللہ" میں یہ کام کروں گا تو ان الفاظ سے نذر منعقد نہیں ہوگی۔
مذکورہ بالا شرائط کے مطابق اگر نذر مانی جائے تو وہ نذر منعقد ہو جائے گی اور اسے پورا کرنا شرعاً واجب ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (كتاب الصوم، باب مايفسد الصوم و مالايفسده، 316/2، ط: رشيدية)
"واعلم بأنهم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثة كون المنذور ليس بمعصية وكونه من جنسه واجب وكون الواجب مقصودا لنفسه قالوا فخرج بالأول النذر بالمعصية والثاني نحو عيادة المريض والثالث ما كان مقصودا لغيره حتى لو نذر الوضوء لكل صلاة لم يلزم وكذا لو نذر سجدة التلاوة".
بدائع الصنائع: (كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، 81/5، ط: دار الكتب العلمية)
"فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك".
بدائع الصنائع: (كتاب النذر، فصل وأما شرائط الركن فأنواع، 82/5، ط: سعيد)
"(ومنها) أن يكون قربة مقصودة، فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قربا؛ لأنها ليست بقرب مقصودة ويصح النذر بالصلاة والصوم والحج والعمرة والإحرام بهما والعتق والبدنة والهدي والاعتكاف ونحو ذلك؛ لأنها قرب مقصودة".
الفتاوى الهندیة: (كتاب الصوم، الباب السادس في النذر، 208/1، ط: دار الفكر)
"الأصل أن النذر لا يصح إلا بشروط (أحدها) أن يكون الواجب من جنسه شرعا فلذلك لم يصح النذر بعيادة المريض. (والثاني) أن يكون مقصودا لا وسيلة فلم يصح النذر بالوضوء وسجدة التلاوة. (والثالث) أن لا يكون واجبا في الحال، وفي ثاني الحال فلم يصح بصلاة الظهر وغيرها من المفروضات هكذا في النهاية (والرابع) أن لا يكون المنذور معصية باعتبار نفسه هكذا في البحر الرائق".
العرف الشذي: (أبواب النذور و الأيمان، 279/1، ط: سعيد)
"ومنها أنه عمل اللسان لا القلب فقط، وصيغته صيغة الشرط والجزاء".
المبسوط للسرخسي: (كتاب المناسك، باب النذر، 133/4، ط: دار المعرفة)
"وإن وصل الاستثناء بنذره لم يلزمه شيء؛ لأن الاستثناء يخرج الكلام من أن يكون عزيمة."
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی