سوال:
مفتی صاحب! ہمارے والد صاحب ایک سرکاری ملازم تھے اور وہ اپنی وفات سے پہلے ملازمت کی مدت پوری ہونے کے قریب ہوچکے تھے، جس کے بعد ان کو پراویڈنٹ فنڈ ملنے والا تھا، لیکن اس دوران ان کی وفات ہوگئی تو وہ فنڈ اور ایک پلاٹ (پلاٹ کی رقم ملازم کے اسکیل کی وجہ سے ملتی ہے جو کہ وفات یا ریٹائر دونوں صورتوں میں ملازم کو ملتی ہے) کے پیسے ہماری والدہ کو ملے۔ مزید یہ کہ جب تک ہمارے والد صاحب کی عمر 60 سال تک نہیں پہنچے گی، تب تک ہماری والدہ کو ڈبل پینشن ملے گی تو اب پوچھنا یہ ہے کہ والد صاحب کی وجہ سے ملنے والے فنڈ اور پلاٹ کے پیسوں میں اور والدہ کو جو اضافی پینشن ملے گی، اس میں بیٹے اور بیٹیوں تمام بچوں کا بھی حق ہے یا صرف والدہ کا حق ہے؟
نیز یہ کہ ہم نے فنڈ اور پلاٹ کے پیسوں سے ایک مکان اور ایک پلاٹ خریدا ہے جوکہ بھائی کے نام کیا ہے، اس لیے کہ والد صاحب بھی کوئی چیز خریدتے تو وہ بھی بھائی کے نام کرواتے تھے، سوائے گاؤں کی جائیداد کے، کیونکہ وہ والد صاحب کے نام ہے تو کیا جو چیزیں بھائی کے نام ہیں، ان میں بہنوں کا بھی کوئی حق ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ پراویڈنٹ فنڈ اور مکان کی مد میں ملنے والی رقم مرحوم والد کا ترکہ شمار ہوگی اور مرحوم کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی، جبکہ پینشن کی رقم متعلقہ ادارے کی طرف سے عطیہ ہوتی ہے، پینشن کی رقم ادارہ جس کے نام پر جاری کرے، وہی اس کا مالک ہوتا ہے، اس میں میراث جاری نہیں ہوتی ہے۔
پوچھی گئی صورت میں پینشن کی رقم چونکہ ادارہ نے والدہ کے نام پر جاری کی ہے، لہذا پینشن کی رقم والدہ کی ملکیت شمار ہوگی اور اس میں آپ کے والد کی میراث جاری نہیں ہوگی۔
نیز واضح رہے کہ صرف نام کرنے سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی ہے، جب تک کہ اس چیز کا اس کو مالک بنا کر قبضہ نہ دے دیا جائے، لہذا اگر فنڈ اور پلاٹ کے پیسوں سے خریدا گیا مکان صرف بھائی کے نام کیا تھا اور مکمل قبضہ اور تصرف نہیں دیا تھا تو یہ مکان بھائی کی ملکیت شمار نہیں ہوگا، بلکہ اس میں تمام شرعی ورثاء کا ان کے شرعی حصوں کے مطابق حق ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (المادة: 57، 57/1، ط: دار الجیل)
التبرع فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي.
و ایضاً: (المادة: 1092، 55/3، ط: دار الجیل)
"المادة (1092) (كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين وارثيه على حسب حصصهم كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين وارثيه على حسب حصصهم)."
بدائع الصنائع: (57/7، ط: دار الکتب العلمیة)
لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی