عنوان: مخصوص خریداری کرنے پر کوئی اضافی چیز دینا اور دکاندار کا وہ چیز سامان سے نکال لینا (15904-No)

سوال: ہمارے یہاں کاروبار میں بہت ساری اسکیم کسٹمر حضرات کو مہیا کی جاتی ہیں، جیسے تین صابن کے پیکٹ پر بیس روپے کی بچت، اسی طریقے سے پتی وغیرہ پر کچھ دیا جاتا ہے، اگر ہم دکان والے اس کو الگ کر کے ریٹیل ریٹ پر بیچیں تو کیا ہمارے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟ اسی طرح سے تیل والے یا پتی والے ایک خاص مقدار پر خریدنے پر کھانے کی ٹرے، پلیٹ یا چمچ دیتے ہیں، کیا ہم دکاندار یہ چیزیں اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں؟

جواب: پوچھی گئی صورت میں مخصوص خریداری پر گاہک کو کوئی اضافی چیز مفت میں دینا لوگوں کو خریداری پر ابھارنے اور رغبت دلانے کا ذریعہ ہے، اور وہ گاہک کے لیے عطیہ(gift) ہے جو کہ جائز ہے، بشرطیکہ اس انعامی اسکیم کو غیر معیاری اور گھٹیا سامان کی ترویج کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور اس سامان کی عام قیمت میں انعام کی وجہ سے اضافہ نہ کیا جائے، نیز ایسی صورت میں گاہک کے لیے اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔
جہاں تک دکاندار کا وہ اضافی چیز نکالنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر دکاندار اپنے سپلائر/ وینڈر کا وکیل اور ایجنٹ بن کر آگے مال بیچتا ہو تو ایسی صورت میں دکاندار کیلئے اضافی سامان نکالنا امانت میں خیانت اور دھوکہ دہی ہوگی جو کہ جائز نہیں ہے،لیکن اگر دکاندار اپنے سپلائر کا ایجنٹ نہ ہو، بلکہ اس سے مال باقاعدہ خرید کر آگے فروخت کرتا ہو تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ انسان جب کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ اس چیز کے تمام منافع کے ساتھ مالک بن جاتا ہے، اس بناء پر وہ اس میں جائز تصرف کرسکتا ہے، بیچنے والا اسے پابند نہیں بناسکتا کہ وہ اپنے استعمال میں نہ لائے۔ اس اصول کی روشنی میں دکاندار کا وہ انعامی سامان نکال لینا ناجائز یا حرام نہیں ہے، البتہ کاروباری اخلاقیات کا تقاضہ یہ ہے کہ دکاندار کو چاہیے کہ اپنے گاہک کو بھی وہ مال انعامی سامان کے ساتھ ہی فروخت کرے، جیسے اس کو اپنے سپلائر سے ملا ہے، تاکہ گاہک اور سپلائر کے درمیان بد اعتمادی کی فضا قائم نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بحوث في قضایا فقهیة معاصرة: (235/2، ط: مکتبه دار العلوم کراتشی)
"إن مثل هذہ الجوائز التي تمنح علی أساس عمل عمله أحد لا تخرج عن کونه تبرعاً وهبةً؛ لأنها لیس لها مقابل، وأن العمل الذي عمله الموهوبُ له لم یکن علی أساس الإجارة أو الجهالة، حتی یقال: إن الجائزة أجرة لعمله، وإنما کان علی أساس الهبة للتشجیع، وجاء في الموسوعة الکویتیة: الأصل إباحة الجائزة علی عمل مشروع سواء کان دینیًا أو دنیویًا لأنه من باب الحث علی الخیر والإعانة علیه بالمال، وهو من قبیل الہبة"

و فیه ایضا:
"ان لا تتخذ هذہ الجوائز ذریعة لترويج البضاعات المغشوشة٬ لان الغش والخديعة حرام لا يحوز"

کذا فی فتاوی عثمانی: (258/3، ط: مکتبه دار العلوم کراتشی)

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 111 May 07, 2024
makhsos kharidari karne per koi izafi cheez dena or dukandar ka wo cheez saman se nikal lena

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.