سوال:
کیا اسلامی احکام کے مطابق طلاق سے متعلق مسئلہ کا فیصلہ شوہر کی رائے لیے بغیر کیا جا سکتا ہے؟ جب شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے سے انکار کر دے، شوہر قسم کھا رہا ہے اور گواہ بھی پیش کر رہا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے۔
تنقیح:
محترم! آپ کا سوال مبہم ہے، اس کی وضاحت فرمائیں کہ حقیقی صورت کیا پیش آئی ہے؟ عورت کیا دعوی کرتی ہے اور کیا عورت کے پاس اپنے دعوے پر گواہ موجود ہیں؟ اور کیا شوہر انکار کی صورت میں قسم کھانے کے لیے تیار ہے؟
جواب تنقیح:
میری زوجہ کا دعوٰی ہے کہ میں نے موقع پر موجور پولیس سے کہا ہے کہ میں طلاق دے رہا ہوں، جبکہ موقع پر موجود ایک مسلمان پولیس اہلکار نے اس کی نفی کی ہے۔ شوہر (میں) طلاق سے مکمل طور پر انکاری ہے اور شوہر قسم کھا رہا ہے اور گواہ (موقع پر موجود ایک مسلمان پولیس اہلکار) بھی پیش کر رہا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے۔
جواب: مفتی غیب کا علم نہیں جانتا، وہ سائل کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق جواب دیتا ہے، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر عورت ایک مرتبہ طلاق دینے کا دعوی کرتی ہے اور اس کے پاس اپنے دعوی پر شرعی گواہ (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) موجود ہیں تو شرعاً اس کے حق میں فیصلہ ہوگا اور اس عورت پر ایک طلاق واقع ہو جائے گی اور شوہر کو دورانِ عدت رجوع کا حق حاصل ہوگا، اگر شوہر نے دوران عدت رجوع نہیں کیا تو عدت گزر جانے کے بعد باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں، اور اگر عورت کے پاس اپنے دعوی پر شرعی گواہ موجود نہ ہوں تو شوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
العناية شرح الهداية: (370/7، ط: دار الفكر)
(قال: وما سوى ذلك من الحقوق يقبل فيها شهادة رجلين أو رجل وامرأتين سواء كان الحق مالا أو غير مال مثل النكاح) والطلاق والعتاق والعدة والحوالة والوقف والصلح (والوكالة والوصية) والهبة والإقرار والإبراء والولد والولاد والنسب ونحو ذلك.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی