عنوان: غائبانہ نمازِ جنازہ کا حکم(1667-No)

سوال: السلام علیکم،
شیخ ! غائبانہ نماز جنازہ حضرت امام ابو حنیفہ اور باقی ائمہ کے حوالے سے بیان فرما دیں.

جواب: احناف اور مالکیہ کے نزدیک غائبانہ نمازِ جنازہ جائز نہیں، جبکہ امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ہے۔
ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی شاہ حبشہ کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی تھی۔
احناف کی طرف سے اس کا یہ جواب دیا جاتا ہے کہ یہ حضورﷺ کی خصوصیت ہے، نیز روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی کا جنازہ آپ کے سامنے کر دیا گیا تھا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ جس روز نجاشی کا انتقال ہوا، اس روز آپ نے صحابہ کو خبر دی کہ تمہارے بھائی نجاشی کا انتقال ہوگیا اور صحابہ کے ہمراہ آپ اس جگہ تشریف لے گئے، جہاں جنازہ کی نماز پڑھی جاتی تھی، آپ کھڑے ہوگئے اور صحابہ نے آپ کے پیچھے صف بندی فرمائی اور چار تکبیریں کہہ کر جنازہ کی نماز پڑھائی، صحابہ رضی اﷲ عنہم اجمعین کا بیان ہے کہ ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جنازہ آپ کے سامنے ہے۔
حنفی و مالکی مسلک کی دلیل یہ ہے کہ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار واقعاتِ وفات پیش آئے، بہت سے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت و وفات کے واقعات ہوئے، مگر کسی کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی، خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم دور دراز علاقوں میں مقیم تھے، مگر ثابت نہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو، خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عہد مبارک میں بھی غائبانہ نماز جنازہ کا معمول کہیں منقول نہیں ملتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

موسوعۃ الفقہ الاسلامی: (761/2، ط: بيت الافكار الدولیۃ)
من مات في بلد ليس فيها من يصلي عليه صلاة الجنازة، ودفن ولم يصل عليه فالسنة أن يصلي عليه طائفة من المسلمين صلاة الغائب بإمام وجماعة، ومثله الغريق والمحترق.
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نعى النجاشي في اليوم الذي مات فيه، وخرج بهم إلى المصلى، فصف بهم، وكبر عليه أربع تكبيرات. متفق عليه (١).
٢ - كل ما سوى ذلك فلا تشرع الصلاة عليه، فقد توفي النبي - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه رضوان الله عليهم متفرقون في البلدان، ولم يثبت عن أحد منهم أنه صلى عليه صلاة الغائب.
وتوفي أصحابه - صلى الله عليه وسلم - في البلدان، ولم يصل عليهم هو صلاة الغائب.
وتوفي الخلفاء الراشدون، والأئمة المهديون، ولم يذكر عن أحد من الصحابة الغيب الصلاة عليهم صلاة الغائب.

الدر المختار: (208/2، دار الفکر)
وشرطها أيضا حضوره (ووضعه) وكونه هو أو أكثره (أمام المصلي) وكونه للقبلة فلا تصح على غائب ومحمول على نحو دابة وموضوع خلفه، لأنه كالإمام من وجه دون وجه لصحتها على الصبي وصلاة النبي - صلى الله عليه وسلم - على النجاشي لغوية أو خصوصية.

المبسوط للسرخسی: (67/2، ط: دار المعرفة)
(وعلى) هذا قال علماؤنا رحمهم الله تعالى لا يصلى على ميت غائب. وقال الشافعي - رضي الله عنه -: يصلى عليه فإن «النبي - عليه الصلاة والسلام - صلى على النجاشي وهو غائب» ولكنا نقول: طويت الأرض وكان هو أولى الأولياء ولا يوجد مثل ذلك في حق غيره

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2778 Jun 18, 2019
ghaibana namaz e janaza ka hukum, Ruling on funeral prayers in absentia

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Funeral & Jinaza

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.