سوال:
جناب مفتی صاحب، السلام علیکم! میرا سوال یہ ہے كہ مرحوم عبدالستار ولد نور محمد نے ترکہ میں کچھ منقولہ اور کچھ غیر منقولہ جائیدادیں چھوڑی ہیں۔ مرحوم کے ورثاء میں اس کی بیوہ، پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ برائے مہربانی میری رہنمائی فرمادیں کہ مرحوم کی وراثت مندرجہ بالا افراد میں کس طرح تقسیم ہوگی یا کس کو جائیداد کا کتنا حصہ ملے گا؟
جواب: مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو چھیانوے (96) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو بارہ (12)، پانچوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو چودہ (14) اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو سات (7) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیوہ کو %12.5 فیصد حصہ، پانچوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو %14.58 فیصد حصہ اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو %7.29 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَٰدِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ۚ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن... الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی