سوال:
بکریوں کا اس طرح معاملہ کرنا کیسا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں ہیں اور دوسرا انکو پال پوس کر بڑا کرتا ہے، جب بچے پیدا ہوں، تو دونوں آدھا آدھا حصہ رکھیں گے، بعض کہتے ہیں کہ تعامل ناس کی وجہ سے یہ جائز ہے؟
جواب: جانور بطورِ شرکت پالنے پر دینے کی مذکورہ صورت کو فقہائے احناف نے ناجائز کہا ہے۔
کیونکہ یہ اجارہ فاسدہ ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ بچے مالک کے ہوں گے، اور پالنے والے کو معروف اجرت دی جائے گی، البتہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے امداد الفتاوی: ج:3، ص 344 پر لکھا ہے کہ بعض حنابلہ کے نزدیک اس میں جواز کی گنجائش ہے، لہذا جہاں ابتلاءِ شدید کی صورت ہو، تو اس کے جواز کی گنجائش ہے، لیکن بہرحال بچنے میں احتیاط زیادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (کتاب الشرکة، الباب الخامس في الشركة الفاسدة، 335/5، ط: رشیدیة)
إذا دفع البقرة إلى إنسان بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين فما حدث فهو لصاحب البقرة ولذلك الرجل مثل العلف الذي علفها وأجر مثله فيما قام عليها وعلى هذا إذا دفع دجاجة إلى رجل بالعلف ليكون البيض بينهما نصفين، والحيلة في ذلك أن يبيع نصف البقرة من ذلك الرجل ونصف الدجاجة ونصف بذر الفليق بثمن معلوم حتى تصير البقرة وأجناسها مشتركة بينهما فيكون الحادث منها على الشركة، كذا في الظهيرية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی