سوال:
مفتی صاحب ! کیا ضروری ہے کہ رمضان میں جس کا انتقال ہو جائے وہ نصیب والی موت ہوگی اور وہ بخشا ہوا ہو گا ؟ کیا رمضان میں انتقال کرنے والے کی کوئی فضیلت اور عذاب قبر سے محفوظ ہونے والی کوئی بھی فضیلت ہے؟ جس طرح جمعہ کی ہے۔
جواب: حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو مومن رمضان میں یا جمعہ کے دن وفات پائے، اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جومسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی شب مرتا ہے اللہ تعالیٰ قبر کی آزمائش سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:جمعہ کے دن جس کی موت ہوگی وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔
اس بات میں اختلاف ہے کہ ہمیشہ کے لیے قبر کا عذاب اس سے اٹھالیا جاتا ہے یا صرف رمضان تک یا صرف جمعہ کو؟ اللہ کی بے پناہ رحمتوں سے یہی امید رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔اور اگر کوئی غیر مسلم رمضان المبارک میں مر جائے تو صرف ماہ مبارک کے احترام میں رمضان المبارک تک عذاب قبر سے محفوظ رہے گا، اور رمضان کے بعد پھر اسے عذاب ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (165/2)
قال أهل السنة والجماعة: عذاب القبر حق وسؤال منكر ونكير وضغطة القبر حق، لكن إن كان كافراً فعذابه يدوم إلى يوم القيامة ويرفع عنه يوم الجمعة وشهر رمضان، فيعذب اللحم متصلاً بالروح والروح متصلاً بالجسم فيتألم الروح مع الجسد، وإن كان خارجاً عنه، والمؤمن المطيع لا يعذب بل له ضغطة يجد هول ذلك وخوفه، والعاصي يعذب ويضغط لكن ينقطع عنه العذاب يوم الجمعة وليلتها، ثم لا يعود وإن مات يومها أو ليلتها يكون العذاب ساعةً واحدةً وضغطة القبر ثم يقطع، كذا في المعتقدات للشيخ أبي المعين النسفي الحنفي من حاشية الحنفي ملخصاً ''۔
مسند احمد حديث نمبر ( 6546 )
جامع ترمذى حديث نمبر ( 1074 )
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی