resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: چہرے کا پردہ(1777-No)

سوال: السلام علیکم، حضرت ! سوال یہ ہے کہ عورت کو پردہ کرنے کا حکم ہے یا نقاب کرنے کا ؟ قرآن میں تو صرف پردے کا حکم ہے، نقاب کرنا کہاں سے ثابت ہے؟ اور عورت کو سَر کے بال سے پاؤں کے ناخن تک چھپانا کہاں سے ثابت ہے؟

جواب: واضح رہے کہ ہماری شریعت مطہرہ نے انسانیت کو عفت و پاکدامنی والا پاکیزہ معاشرہ تشکیل دینے کے لیے جو جو قوانین و احکام بیان کیے ہیں، ان میں سے عورت کو پردہ کرنے کا حکم کلیدی حیثیت رکھتا ہے، چنانچہ اس سلسلے میں مختلف آیات اور بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، جن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عورت کے جسم کا کوئی بھی حصہ کسی نامحرم اجنبی مرد کے سامنے ظاہر نہ ہو، لہذا عورت اگر گھر سے باہر اپنی کسی ناگزیر دینی یا دنیوی ضرورت کے لیے نکلے تو حجاب کر کے باہر جائےگی۔
قرآن کریم کی آیت ہے:
" یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا".
( سورہ الاحزاب )آیت نمبر ﴿۵۹﴾
ترجمہ:
اے نبی ! تم اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منہ کے) اوپر جھکا لیا کریں، اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
( آسان ترجمۂ قرآن)
یہ آیت "حجاب" کے احکام میں نہایت اہمیت کی حامل ہے، اس میں وضاحت کے ساتھ " چہرے کے پردے " کا حکم دیاگیا ہے۔
چنانچہ مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں بہت تفصیل سے اس مسئلے کو واضح کیا ہے کہ مذکورہ آیت کے نازل ہونے کے وقت سے لے کر اب تک صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، تمام مسالک کے فقہاء کرام اس آیت مبارکہ کایہ مفہوم بیان کرتے آئے ہیں:
گھر سے باہر نکلتے وقت عورت کے لیے غیر محرم کے سامنے اپنے تمام بدن کو چہرہ سمیت بڑی چادر یا موٹے برقعے سے ڈھانپنا ضروری ہے، صرف ایک یا دو آنکھیں راستہ دیکھنے کے لیے کھلی رکھنے کی اجازت ہے۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:
"معنی ”یدنین علیہن“ یرخین علیہن یقال: اذا زلّ الثوب عن وجہ المرأة أدلی ثوبک علی وجہک وعندی أن کل ذٰلک بیان لحاصل المعنی والظاہر أن المراد ب”علیہن“ علی جمیع أجسادہن
(روح المعانی: ۲۶۴/۱۱، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)
تفسیر البحر المحیط میں ہے:
”یدنین علیہن“شامل لجمیع أجسادہن أوعلیہن: علی وجوہہن لأن الذی کان یبدو فی الجاہلیة ہو الوجہ".
(البحرالمحیط: ۵۰۴/۸، ط: دارالفکر، بیروت)
مذکورہ بالا مفسرین کی عبارتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آیت مذکورہ میں عورتوں کے لیے چہرہ سمیت مکمل بدن چھپانے کا حکم ہے اور اس آیت کے نازل ہونے کامقصد بھی یہی ہے۔
فتح القدیر میں ہے:
" فأخرج ابن جریر وابن أبی حاتم وابن مردویہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما فی ہذہ الآیة قال: أمر اللّٰہ نساء الموٴمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق روٴوسہن بالجلابیب ویبدین عینًا واحدة۔ وأخرج عبدالرزاق وأبو داوٴد وابن أبی حاتم عن أم سلمۃ قالت: لمّا نزلت ہٰذہ الآیة : ”یدنین علیہن من جلابیہن“ خرج نساء الأنصار کأن علی روٴوسہن الغربان من السکینة وعلیہن أکسیة سود یلبسونہا".
(فتح القدیر: ۳۵۲/۴، ط: دارابن کثیر)
ترجمہ:
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی عورتوں کو یہ حکم فرمایا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں کے ذریعے اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ کھولیں اورحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی توانصار کی خواتین اپنے گھروں سے اس طرح نکلیں کہ گویاان کے سر اس طرح بے حرکت تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور ان کے اوپر کالا کپڑاتھا، جسکو وہ پہنی ہوئی تھیں"۔
تفسیر روح المعانی میں ہے:
"وعن محمدبن سیرین قال سألتُ عبیدة السلمانی عن ہٰذہ الآیة: یدنین علیہن من جلابیبہن ، فرفع ملحفةً کانت علیہ وغطی رأسہ کلّہ حتی بلغ الحاجبین وغطی وجہہ وأخرج عینہ الیُسریٰ من شق وجہہ الأیسر وقال قتادة: تلوی الجلباب فوق الجبین وتشدہ ثم تعطفہ علی الأنف وان ظہرت عیناہا لکن تستر الصدرومعظم الوجہ"۔
(روح المعانی: ۲۶۴/۱۱، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)
ترجمہ:
"محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبیدہ بن سفیان سلمانی رحمہ اللہ تعالیٰ سے چادر کے اوڑھنے کا طریقہ معلوم کیا تو انھوں نے اپنی شال اٹھائی اورپہلے انھوں نے اپنے سر اورپیشانی کو اس طرح ڈھانکا کہ بھنویں تک چھپ گئیں، پھر اسی چادر سے اپنے چہرے کے بقیہ حصے کو اس طرح چھپایا کہ صرف داہنی آنکھ کھلی رہ گئی۔
اورحضرت قتادہ رحمہ الله تعالیٰ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورت اپنے "جلباب" کو اپنی پیشانی سے موڑ کر باندھ لے اور پھر اپنی ناک پرموڑلے ، اگرچہ دونوں آنکھیں ظاہر ہوجائیں؛ لیکن اپنے سینے کو اورچہرے کے اکثر حصے کو چھپالے"۔
مذکورہ بالا یہی مضمون تفسیرِ قرطبی، تفسیر ابو السعود اور تفسیر المظہری میں بھی موجود ہے۔
(ہکذا قال العلامة القرطبی فی تفسیرہ: ۴۸۱/۱۴، ط: دارطیبة للنشر والتوزیع، وأبوالسعود: : ۱۱۵/۷، ط: داراحیاء التراث العربی، والقاضی ثناء اللّٰہ فی التفسیرالمظہری : ۳۸۴/۷، ط: مکتبة الرشیدیة، باکستان)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

chehray ka parda, Rullinf on Face veil

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Women's Issues