سوال:
میرا ایک دوست کہتا ہے کہ قربانی ہر سال اپنے نام سے کرنا ضروری نہیں ہوتی ہے، زندگی میں ایک مرتبہ اپنے نام سے کرنا کافی ہے اور پھر دوسروں کے نام سے کروانی چاہیے۔ میرے بھائی ہر سال قربانی کرواتے ہیں مگر اپنے نام سے، بلکہ دوسروں کے نام سے کرواتے ہیں، وہ بولتے ہیں کہ قرآن مجید میں کہیں بھی نہیں ہے کہ ہر سال اپنے نام سے کرو، بلکہ یہ صرف پاکستان اور انڈیا میں ہے کہ اپنے نام سے قربانی کرو۔ براہ کرم قرآن و حدیث سے اس کی وضاحت فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ اگر صاحب نصاب کے پاس ہر سال قربانی کے نصاب کے برابر مال موجود ہو تو اس کے ذمہ اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ یہ کہنا کہ "صاحب نصاب شخص کے ذمہ ہر سال اپنی طرف سے قربانی کرنا لازم نہیں ہے" درست بات نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال اپنی طرف سے قربانی فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنی زندگی کے دس سال گزارے ہیں اور ہر سال قربانی کرتے رہیں۔" (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 1507)
اسی طرح جس حدیث مبارکہ میں قربانی کے وجوب کو بیان کیا گیا ہے، اس میں بھی اس بات کا ذکر کہیں بھی موجود نہیں ہے کہ قربانی کا وجوب صرف زندگی میں ایک ہی مرتبہ ہے، بلکہ اس میں صراحت کے ساتھ یہ بات موجود ہے کہ جب بھی کوئی شخص صاحب استطاعت (یعنی صاحب نصاب) ہو تو اس کے ذمہ قربانی کرنا لازم ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کو (قربانی کرنے کی) وسعت ہو اور وہ اس کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے"۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3123)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (رقم الحديث: 1507، ط: دار الغرب الإسلامي)
حدثنا أحمد بن منيع وهناد قالا: حدثنا ابن أبي زائدة ، عن حجاج بن أرطاة، عن نافع ، عن ابن عمر قال: «أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة» عشر سنين يضحي كل سنة. هذا حديث حسن.
سنن ابن ماجه: (رقم الحديث: 3123، ط: دار إحياء الكتب العربية)
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا زيد بن الحباب قال: حدثنا عبد الله بن عياش، عن عبد الرحمن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی