سوال:
حضرت! اگر بیٹا اپنی خریدی ہوئی جائیداد اپنے والد صاحب کے نام کردے اور نیت یہ ہو کہ وہ اپنی حیات میں جیسے چاہیں اسے استعمال کریں تو کیا ان کے انتقال کے بعد وہ جائیداد ان کے ترکہ میں شمار ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ اگر بیٹے نے مالکانہ اختیارات کے ساتھ جائیداد والد کے نام کی ہو تو یہ جائیداد والد کی ملکیت شمار ہوگی اور والد کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگی، اور اگر بیٹے نے صرف جائیداد نام کی ہو، مالکانہ قبضہ و تصرف نہ دیا ہو تو ایسی صورت یہ جائیداد بیٹے کی ہی ملکیت شمار ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"۔
شرح المجلة: (رقم المادۃ: 837)
تنعقد الهبة بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنها من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض".
الفتاوی الھندیة: (378/4، ط: رشیدیه)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
بدائع الصنائع: (57/7، ط: دار الکتب العلمیة)
لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی