سوال:
مفتی صاحب میرا نام ابراھیم ہے، میرے نانا (صالح محمد) کا کافی عرصہ پہلے انتقال ہوگیا تھا، میرے نانا نے اپنے ترکہ میں ایک (1) پلاٹ اور اس کے نیچے چار دکانیں چھوڑیں، جن کا کرایہ میری پیدائش سے پہلے سے میرے ماموں (علی محمد) وصول کررہے ہیں، پھر نانا کی وراثت کی تقسیم سے قبل میری نانی (عائشہ کا انتقال ہوگیا اور ابھی کچھ عرصہ قبل میری والدہ (کلثوم) کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ ورثاء میں میں (ابراھیم)، میری بہن (خدیجہ)، میرے والد صاحب(عبدالغنی) اور میرے ماموں(علی محمد) ہیں۔
آنجناب سے گذارش ہے کہ شریعت کی روشنی میں ہمیں بتادیں کہ کیا ہمارے نانا اور نانی کی میراث میں ہماری والدہ کا حصہ ہے اور اگر ہے تو ہماری والدہ کی وفات کے بعد ہم ورثاء میں سے کس کو کتنا ملے گا؟
جواب: مرحومین کی تجہیز وتکفین کے جائز اورمتوسط اخراجات،قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (3/1) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیدادمنقولہ اور غیرمنقولہ کوچوبیس (24) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سےعلی محمد کو سولہ (16)حصے،عبدالغنی کو دو (2) حصے،ابراھیم کو چار (4) حصےاور خدیجہ کو دو (2) حصے دئیے جائیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں توعلی محمد کو %66.66 فیصد ، عبدالغنی کو %8.33 فیصد ،ابراھیم کو % 16.66اور خدیجہ کو %8.33 فیصد حصہ ملے گا۔
نوٹ: کرایہ بھی ورثاء میں اسی تناسب سے تقسیم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11، 12)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ .....
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
الدر المختار: (کتاب الفرائض، 81/6، ط: سعید)
فصل في المناسخة (مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية) ... الخ.
المبسوط للسرخسی: (باب المناسخة، 65/3، ط: رشیدیة)
(قال - رحمه الله -): وإذا مات الرجل ولم تقسم تركته بين ورثته حتى مات بعض ورثته فالحال لا يخلو إما أن يكون ورثة الميت الثاني ورثة الميت الأول فقط أو يكون في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول ... وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت فإنه تقسم تركة الميت الأول أولا لتبين نصيب الثاني، ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته ... الخ.
شرح المجلة للأتاسی: (المادة: 1073، 12/4، ط: رشیدیة)
لأموال المشترکة شرکة الملك تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی