سوال:
السلام علیکم! آج کل یہ رواج ہو گیا ہے کہ دولہا اور دلہن والے مل کر اجتماعی ضیافت کرتے ہیں، اس میں دولہا والوں کی نیت ولیمے کی ہوتی ہے اور دلہن والوں کی نیت شادی کی ضیافت ہوتی ہے جس کا نام reception یا شلیمہ ہوتا ہے، اس کی شرعی رہنمائی فرما دیجیے۔ ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ اس طرح کی دعوت کا عمومی مقصد بچت ہوتا ہے۔
جواب: واضح رہے کہ نکاح کے موقع پر لڑکے اور لڑکی والوں کے لیے باہمی اتفاق و رضامندی سے مل کر اپنے مہمانوں کے لیے اجتماعی ضیافت کا اہتمام کرنا جائز ہے، اور اس سے نفسِ ولیمہ کی سنت ادا ہو جائے گی، البتہ لڑکی والوں کی طرف سے اپنے مہمانوں کے بقدر خرچ برداشت کرنے کی وجہ سے یہ ضیافت ان کے مہمانوں کے حق میں ولیمہ کی دعوت نہیں ہوگی، بلکہ ان کے حق میں یہ محض ایک دعوت ہوگی، لہذا اگر لڑکے والوں کے لیے گنجائش ہو تو مکمل ضیافت کا اہتمام ان کے لیے کرنا بہتر رہے گا تاکہ تمام مہمانوں کے لیے یہ دعوت مسنون ولیمہ کی بابرکت دعوت رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 6018، 11/8، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت.
شعب الإيمان للبيهقي: (رقم الحديث: 5105، ط: مكتبة الرشد بالرياض)
عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (1974/5، ط: دار الفكر)
("لا يحل مال امرئ") أي: مسلم أو ذمي ("إلا بطيب نفس") أي: بأمر أو رضا منه.
الفتاوى الهندية: (342/5، ط: دار الفكر)
المسافرون إذا خلطوا أزوادهم أو أخرج كل واحد منهم درهماعلى عدد الرفقة واشتروا به طعاما وأكلوا، فإنه يجوز، وإن تفاوتوا في الأكل، كذا في الوجيز للكردري. والله أعلم.
کذا فی فتاوی دارالعلوم دیوبند: رقم الفتوی: (766-150T/N=1/1440)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی